اعوان برادری کے بارے میں تفصیل جانیں
اعوان اکثر انصار کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ اعوان ایک قوم کا نام جو جنوبی ایشیا میں، پاکستان کے پنجاب کے مغربی حصوں میں ایک قبیلہ ہے. اعوان قوم عربی النسل ہونے کا دعویٰ کرتی ہے کہ وہ چوتھے خلیفہ علی کرم اللہ کی اولاد ہیں. اعوان قوم کا سلسلہ نسب علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے. اعوان قوم کوہ نمک کے علاقے وادی سون سکیسر وغیرہ میں ساتویں صدی عیسوی میں عرب حملہ آوروں کے دور میں یہاں آ ئی تھی. اعوانوں کو کم از کم پاکستان میں سب سے بڑا قبیلہ مانا جاتا ہے جو خیبر سے کراچی و بلوچستان و پنجاب تک میں آباد ہے۔ سندھی‘ بلوچی‘ ہندکو اور پشتو بولنے والے اعوان بھی جگہ جگہ مل جاتے ہیں۔
عون قطب شاہ
اعوان قوم کے جد امجد عون قطب شاہ ایک نہایت درویش، صوفی، دلیر مجاہد انسان تھے۔ آپ کی تاریخ پیدائش کے متعلق وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے، البتہ آپ 525ھ میں تبلیغ اسلام بسلسلہ قادریہ کے لئے بحکم جناب شیخ عبدالقادر جیلانی ہندوستان وارد ہوئے۔
عون قطب شاہ کی ہندوستان آمد کے ساتھ ہی پہلا معرکہ دھن کوٹ کمیلا بھنگ خیل نزد کالا باغ سے ہوا۔ عون قطب شاہ کامیاب ہوئے مخالف نے اسلام قبول کیا بعد میں سکیسر راجگان کو زیر کیا اور گجرات تک چلے گئے۔ واپسی پر تلہ گنگ کے مقام پراعوان محل تیار کیا اس کا تذکرہ آئینہ اکبری میں موجود ہے۔ علاقہ پکھڑ دھن پنڈی وغیرہ سے کافی راجگان بھگوڑے ہو کر سکیسر آئے عون قطب شاہ ان کی سر کوبی کے لئے وارد ہوئے علاقہ کو مطیع کیا جنوب میں خانقاہ ڈوگراں تک چلے گئے، اس کے بعد خاندان کے ہمراہ بغداد عازم سفر ہوئے ۔عون قطب شاہ نے 556ھ میں وفات پائی آپ کا مزار کاظمین شریف کے قبرستان میں غوث پاک کے پاؤں کی جانب ہے۔
گوہر شاہ عرف گورڑا
قطب شاہ جو سلطان محمود غزنوی کے ہمراہ جہاد پر تھے۔ جب سلطان نے واپسی اختیار کی تو سلطان سے اجازت لے کر کفرستان ہند میں تبلیغ اسلام کے ارادے سے کالا باغ میں مقیم ہو گئے۔ مگر گرد و نواح کے راجاؤں نے ان پر حملہ کر دیا۔ مگر فتح قطب شاہ کو ہوئی اور اسلام نے پھیلنا شروع کر دیا۔ کالا باغ میں جو اعوان فیملی ہے اور جس کے مشہور و معروف ممبر ملک امیر محمد خان نواب کالا باغ تھے۔
اعوان خاندان کے پہلے بزرگ وادی سون سکیسر میں داخل ہوئے۔ ان کا نام گرامی گوہر شاہ عرف گورڑا تھا‘ خوشاب سے آنے والی سڑک جب نورے والے کے مقام سے سون کے پہاڑ پر تین میل اوپر چڑھتی ہوئی پہاڑ کے اوپر وادی سون سکیسر کے منہ پر پہنچتی ہے وہاں ایک مقام ہے جسے دادا گورڑا کہتے ہیں کیونکہ وہاں پر دادا گورڑا (گوہر شاہ) نے قیام کیا تھا۔ اور جو بھی شخص اس راستے وادی سے تھل کے علاقے میں اترتا ۔ یا تھل سے اوپر وادی میں داخل ہوتا تھا رسماََ ایک پتھر وہاں پر پھینک دیتا تھا حتی کہ وہاں پتھروں کا ایک ٹیلہ بن گیا تھا۔ بالآخر جب وہاں بسوں کے لئے سڑک کی تعمیر ہوئی تو سڑک بنانے والوں نے اس ٹیلے کا ایک بڑا حصہ ہٹا دیا۔ رفتہ رفتہ اعوان ساری وادی پر قابض ہو گئے اور آج تک وادی سون سکیسر کو اعوانوں کے گڑھ کی حیثیت حاصل ہے
ضلع چکوال میں زیاده اعوان رہتے ہیں ان کا ایک اہم قبیله چکوال کے گاوں کرولی میں رہتا ہے ملک گلزار اعوان اسی گاوں کے قبیلے کے سردار ہیں۔
اعوان پابندیٔ شریعت اور حفظ قرآن حکیم کے لئے مشہور رہے ہیں‘ اعوان قبیلہ نے بے شمار اور بہترین حافظ قرآن پیدا کئے‘ بعض لوگ تصور کرتے ہیں کہ اعوانوں کے علاقہ کو اعوان کاری اسی لئے کہتے ہیں کہ وہاں کے قاری اچھے ہیں. ٹھیک ہے اعوان کاری کے قاری اچھے ہیں لیکن اعوان کاری کے معنی ہیں اعوانوں کی آبادی کا علاقہ۔ (کاری کے معنی بھرپور اور گہرائی کے ہیں جبکہ قاری کے معنی پڑھنے والا ہوتا ہے) بعینہ اسی طرح جس طرح کہ پٹھانوں کے علاقے کو پٹھان ولی کہتے ہیں اور اگرچہ پٹھانوں میں ولی بہت ہوتے ہیں اور بڑے مرتبہ کے ولی ہوتے ہیں لیکن پٹھانوں کے علاقے کو پٹھان ولی کہنے کا مطلب ہے کہ پٹھانوں کی آبادی کا علاقہ ہے ولی اعوانوں میں بھی بے شمار ہوئے ہیں۔ صرف وادی سون سکیسر کے چھوٹے سے علاقے میں چار سلطان العارفین کے مزارات ہیں۔
سلطان انب شریف،
سلطان سخی محمد خوشحال،
سلطان حاجی احمد اوچھالہ اور
سلطان مہدی بھانکہ گاؤں میں،
ان کے علاوہ سلطان العارفین سلطان باہو بھی اعوان قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں ان کے والد ماجد بازید شاہجہان کے زمانے میں موضع انگہ وادی سون سکیسر سے ہجرت کر گئے۔ انگہ مولانا غلام مرشد صاحب اور جناب احمد ندیم قاسمی کا گاؤں ہے۔ اور جہاں پر پیر مہر علی شاہ گولڑوی نے قرآن حکیم کی تعلیم حاصل کی تھی۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اعوان قبیلہ کے لوگ علاقہ سون سکیسر سے ہر طرف پھیل گئے اور وہاں تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دیا حتی کہ خطہ کشمیر بھی اس سعادت سے محروم نہیں ہے۔
بابا گوہر علی شاہ کی اولاد میں بہت ولی اللہ پیدا ہوئے ہیں۔ ان میں بابا جھام آج سے بہت پہلے ایک اعوان گھرانہ موضع کھبیکی علاقہ سون سکیسر میں پیدا ہوئے ۔ آپ ابھی چند مہینوں کے تھے کہ ایک دن آپ کی والدہ ماجدہ کہیں باہر جاتے ہوئے اپنی دو کم سن بیٹیوں کو کہہ گئی کہ گائے کے لئے باجرے کی دو پوری پڑوپیاں اور ایک منی پڑوپی ہنڈیا پر ڈال کر چولہے پر چڑھا دینا۔ بچیاں کھیل میں لگ گئیں اور انہیں یاد نہ رہا کہ والدہ نے کتنے دانے چولھے پر چڑھانے کے لئے کہے تھے ۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کو پوچھنے لگیں ۔ ننھا جھام جو پنگھوڑے میں پڑا تھا کہہ اٹھا دو بھریاں ایک منیڑری، یعنی دو پوری پڑوپیاں ایک منی پڑوپی دانے ناپنے کا ایک پیمانہ ہے جو پہلے لکڑی سے بنتا تھا پھر لوہے کا بننے لگا اور دانے ناپنے کے لئے وادی سون سکیسر میں استعمال ہوتا ہے۔ والدہ جب واپس لوٹی تو بچیوں نے کہا اماں یہ ہمارا بھائی تو کوئی بلا ہے اور ماں کو تمام تفصیل سے آگاہ کر دیا ۔ بچے کو کپڑوں میں لپیٹ کر جنگل میں ایک اونچے ٹیلے کے دامن میں ڈال دیا گیا۔ چند روز میں جب اس بات کا چرچا ہوا گاؤں میں عام ہوا تو لوگ بچے کی تلاش میں نکلے دیکھا تو بچہ صحیح سالم پڑا اپنا انگوٹھا منہ میں ڈالے چوس رہا ہے اور انگوٹھے سے دودھ آ رہا ہے اتنے دنوں نہ تو اسے کسی جنگلی جانور نے جو ان دنوں بے شمار پھرتے تھے کچھ کہا نہ اسے بھوک کی کچھ تکلیف ہوئی۔ لوگوں نے جب بچے کو اٹھایا تو بچے نے برجستہ کہا۔ اپنیاں کڑمتیں جھام ڈھبے اتے سٹیں۔ یعنی اپنی کرامات نے جھام کو ٹیلے پر پھینکوایا۔ یہ ٹیلہ اب بھی موضع کھبکی کے شمال میں کھڑا ہے اور اب بھی اس کو جھامے والا ڈھبہ کہتے ہیں۔ بابا جھام کی قبر بھی اسی ٹیلے پر واقع ہے۔[4]
بابا نڈھا بابا جھام کے والد محترم تھے۔ ان کی ایک بیٹی کالا باغی اعوانوں کے خاندان میں بیاہی ہوئی تھی۔ جھیل کھبکی بابا نڈھا کی ملکیت تھی۔ اس جھیل میں اس وقت پانی نہ تھا۔ اور اس رقبے میں کاشت کاری ہوتی تھی۔ ایسی قابل کاشت زمین پاکستان بھر میں نہیں اور اس کو کہار کہا جاتا ہے۔ اور اس کی مکئی کا ہر طرف چرچا تھا۔ بابا نڈھا کی مذکورہ بیٹی نے چاہا کہ بابا نڈھا کچھ زمین اس کہار میں سے اس کے نام کردیں تاکہ اس میں مکئی کی فصل اگائی جا سکے۔ بابا نڈھا کا جواب تھا بیٹی مکئی کی ہر فصل پر میں یہاں سے مکئی سے لدا ہوا جانوروں کا قافلہ کالا باغ تک چلاؤں گا مگر کہار کی زمین دینے سے معذور ہوں ۔ میراثی نے جو جس (شعر) بابا نڈھا کی شان میں پڑھا تھا اسکا ایک بند تاریخ میں اؔ گیا ہے۔ اور وہ یوں ہے :۔
نڈھے مونہیاں ماریاں کھڑڈنڈے اٹی
سیر نہ دیندا مانگویں کہاروں مٹی
یعنی نڈھے نے شمشیر زنی کے بڑے بڑے معرکے مارے لیکن کہار کی زمین سے مانگنے والے کو ایک سیر مٹی بھی نہیں دیتا۔
بابا گوہر علی شاہ کی اولاد سے موضع کھبکی میں ایک سردار خان بلاقی اعوان تھا۔ خان بلاقی کا ایک بھائی دریا خان تھا۔ ایک روز خان بلاقی کو کوئی ضروری کام کٹھہ گاؤں میں پڑ گیا۔ اوروہ گھوڑے پرسوار ہو کر چل پڑا اور اپنے بھائی دریا خان کو ساتھ لے لیا۔ کھبکی سے کٹھہ کا سفر پندرہ میل نہایت ہی دشوار گذار اور نوکیلے پتھروں والا ہے ملک دریاخان گھوڑے کے آگے آگے چل رہا تھا اور ملک دریا خان کے پاؤں میں جوتے نہ تھے وہ نوکیلے پتھروں میں ننگے پاؤں گھوڑے کے آگے آگے بھاگ رہاتھا۔ کٹھہ گاؤں پہنچ کر خان بلاقی نے وہاں کے سردار سے جو کچھ کہنا سننا تھا وہ کہاسنااور فوری واپسی اختیار کر لی۔ ملک دریا خان حسب معمول گھوڑے کے آگے اّگے بھاگتا رہا گھر پہنچ کر تھکے ماندے خان بلاقی نے کچھ دیر کے لئے اّۤنکھ موند لی اور یوں سستا کراٹھااور مسجد میں پہنچا ۔اس کامعمول تھا کہ رات کے پچھلے پہر مسجد کے گوشے میں بیٹھ کر یاد الہی کرتا تھا۔ اس رات جب وہ مسجد کے اندر داخل ہوا تو وہ کسی ذی روح کی سانس کی آواز سن کر ٹھٹھکا سانس کی آواز مسجد کے اسی گوشے سے اّرہی تھی جس میں وہ بیٹھ کر یاد الہی کرتا تھا۔ کچھ دیر کے لئے وہ خاموش کھڑا رہا ۔ پھر پوچھا کون ہے؟ جواب میں ایک مضحمل سی اّۤواز اۤئی ۔ جی میں دریا ہوں۔ خان بلاقی نے یہ سن کر کہاکہ اۤپ نے سرداری لے لی ہے مگر پانے زور سے۔ اور پھر واپس مڑا اور چلا گیا۔ بات دراصل یہ تھی کہ ملک دریا خان کے پاؤں لہو لہان ہو گئے تھے وہ تھکاوٹ سے چور چور ہوچکا تھا۔ اور اس سے بھی بڑھ کر اس کو یہ صدمہ تھا کہ راستہ بھر تک خان بلاقی نے یہ نہ کہاکہ اب میں کچھ دور تک پیدل چلوں گا اور تم گھوڑے پر سوار کر لوں ۔ اس بات کا صدمہ اسے اتنا شدید ہوا کہ تھکن کے باوجود گھر نہیں گیا بلکہ سیدھا مسجد میں گیا اور اسی کونے میں بیٹھ گیا جس میں خان بلاقی بیٹھا کرتا تھا۔ خان بلاقی فوراً بات کی تہہ تک پہنچ گیا۔ اور اپنی لاپرواہی کے پیش نظر اس کے ضمیر نے اس کو جھنجھوڑ ڈالا اور وہ اپنی لغزش کو دیکھ کر کانپ گیا اور اس نے سمجھ لیا کہ سرداری اب اس سے چھن جائے گی۔ اور ملک دریا خان کی نسل میں منتقل ہو جائے گی۔ اس کی یہ فراست حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی۔ جب بھی وہ صبح کی نماز کے بعد مسجد سے گھر آتا اور دیکھتا کہ اس کے بیٹے سو رہے ہیں اور نوکر ان کو دھوپ سے بچانے کے لئے چادریں تان رہے ہیں تووہ کہتا ۔ بیٹو سو لو۔ بس تمہارے تھوڑے دن باقی ہیں یعنی سرداری کی عزت تم سے جلدی چھن جائے گی اور پھر ایسا ہی ہوا۔
1 Comment
very nice information