Skip to content Skip to left sidebar Skip to footer

Month: March 2017

منڈی بہاوالدین ڈھوک کاسب ، ڈاکٹر سرجیت سنگھ ودھاوا

ڈاکٹر سرجیت سنگھ ودھاوا
www.facebook.com/surjit.wadhwa?fref=ufi
(ریٹائیرڈ اسسٹنٹ ڈائریکٹر موهالی انڈیا )
سن
2010
اوائل کی بات هے.  نیا نیا نیٹ کا استعمال  شروع کیا.  ڈیٹا کارڈ خرید کر انٹرنیٹ کا شوق پورا کیا جاتا
وکی میپیا سے میپ دیکھنے کا شوق هوا تو دیکھتے  دیکھتے  ڈھوک کاسب کی لوکیشن پر پهنچا.  تو مجھے اپنے پنڈ کے بارے میں  ایک تعریفی کمنٹ پڑھ کر خوشگوار حیرت هوئی. کمنٹ دینے والے ایک سردار صاحب تھے ان کا ای میل آئی ڈی لکھا هوا تھا.  میں  نے ان کو ای میل کرنے کا فیصله  کیا.  میں  نے ان سے ڈھوک کاسب کے متعلق تعلق کا پوچھا.  اور حیرت انگیز طور پر ان کا  دوسرے دن جواب آ گیا. اس کے بعد میں  نے ان کو فیس بک پر تلاش کر کے ایڈ کیا اور ان کا حلقه احباب ڈھوک کاسب میں  بڑھتا چلا گیا.
انهوں نے ای میل کی وه ذیل میں پیش کی جا رهی هی.  انگلش سے ترجمہ شده هے.  ڈاکٹر صاحب  پی ایچ ڈی مکینیکل هیں اور انسٹیٹیوٹ آف انجنیرنگ  اینڈ ٹیکنالوجی بھاددال انڈیا سے اسسٹنٹ  ڈائریکٹر ریٹائیرڈ  هو چکے هیں

,,میرے وطن کی یادیں

 (ڈاکٹر سرجیت سنگھ ودھاوا)
 

مین اس وقت آٹھ سال کا تھا جب آٹھ اگست 1947 کو ڈھوک کاسب کو چھوڑا. کچھ یادیں میری ھیں اور کچھ میری ماں کی بتائی ھوئی ھیں۔

میری ماں “لسوڑی کلاں” ( ڈھوک کاسب  کے ایک”قریبی گاؤں ” ) سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کی شادی ڈھوک کاسب کے ایک نوجوان ودھاوا سے 1912 یا 1913 میں ھوئی۔ . گاؤں کے غیر مسلم خاندانوں میں ودھاوا ، مونگا اور چھابرا تھے ۔ مسلم خاندانوں میں ساھی ، گوندل اور گوجر شامل تھے۔ یہ سب آپس میں ھنسی خوشی رھتے تھے اور ڈھوک کاسب کے مرکزی دارا میں اپنے اپنے دکھ سکھ کا مشترکہ اظہار کرتے تھے۔

ان دنوں ‘ڈھوک کاسب ‘ کے نوجوان لڑکوں کو ان کے کیریئر میں بہتر مواقع کے لئے امریکہ، کینیڈا، جرمنی، دبئی، وغیرہ، جانے کا شوق ھے۔ لیکن اس وقت(1947 ء سے پہلے)، لوگ   کمانے کے لئے ‘ہندوستان’ جاتے تھے۔  میرے والد بھی کمانے کے لیے ھندوستان جاتے تھے۔ وہ چھ سے سات مہینے وھاں کام کرتے اور برسات کے دنوں میں واپس ڈھوک کاسب آ جاتے۔

میری والدہ نے خاندان کو پالنے کے لیے بھت مشکل وقت گزارا۔ انھون نے تین بڑی بیٹیوں اور دو بیٹوں کی پرورش کی۔ مجھے بڑی اچھی طرح یاد ھے کہ میری والدہ کپڑے دھونے کے لیے کھوہ پر جاتی تھی۔ یہ کھوہ گاؤں کے داخلی راستے پر تھا جو چیلیانوالہ سے آتا ھے۔ جب میری ماں واپس آتی اس کے ھاتھ میں سارے دھلے کپڑے اور پانی کا بھرا ھوا گھڑا ھوتا تھا۔ یہ اس کا روز کا معمول تھا۔

وہ  اپنے فالتو وقت میں وہ کپاس سے دھاگے بناتی۔ اور یہ دھاگے گاؤں کے جولاھوں کو دیے جاتے جو ان سے کھیس اور لوئی بناتے۔ ابھی بھی میرے پاس ڈھوک کاسب کے جولاھا کے ھاتھ سے بنے کھیس موجود ھیں۔  اور میں ان کو بڑی حفاظت سے رکھتا ھوں۔

میری والدہ کی اک گہری دوست تھیں جن کا نام پھوپھی “جوائی “تھا (یاد رھے یہ ھمارے گاؤں کے اک معزز شخصیت چوھدری غلام حیدر گوندل صاحب کی والدہ محترمہ ھیں)۔ یہ ھم بہن بھائیوں کے لیے ماں کا درجہ رکھتیں تھیں۔
یہ شاید 1945 یا 1946 کا دور تھا جب گاؤں کا اک ساھی نوجوان سائیکل لایا۔ یہ شاید فلپس کمپنی کی بنی ھوئی تھی۔ یہ پہلی سائیکل تھی جو ڈھوک کاسب میں آئی تھی۔ گاوں کی عورتیں اس کو “لوھے کا گھوڑا” کہتیں۔
میں اور گاؤن کے دوسرے بچے سائیکل کے پیچھے دورٹے۔ اور اسے چھونے کی خواہش کرتے۔

ایک دفعہ ھندوستان سے واپسی پر، میرے والد لاھور سے ایک گرامو فون لے آئے۔ جو ایچ-ایم-وی کمپنی کا تھا۔ گرامو فون آمد لوگوں کی توجہ کا سبب بن گئی۔

ھمارا گھر چوہدری غلام حیدر  گوندل کے گھر کے پاس تھا۔ میرے والد گلی میں آ کر گرامو فون بجاتے تو محلے کی عورتیں تھوڑا فاصلے پر بیٹھ کر گراموفون سنتیں۔ میں ہمیشہ اس وقت کوئی اچھی جگہ لینے کی کوشش کرتا کہ دوسروں سے ممتاز نظر آؤں۔ گراموفون کی دونوں سائیڈز استعمال کے بعد بیکار ھو جاتیں۔ میرے والد اس کی سوئیوں کو پھینک دیتے۔ میں اس بیکار سوئیوں کو اٹھانے کی کسی کو اجازت نہ دیتا تھا
اس وقت کی کیفیت کو میں کبھی لفظوں میں بیان نھی کر سکتا۔

اسی طرح زندگی گزرتی رھی۔  ایک دفعہ ھندوستان سے واپسی پر  پتہ چلا کہ میرے والد  جگر  کی تکلیف میں مبتلا ھیں۔ ھم لوگ پریشان ھو گئیے اور ھر ممکن علاج کروانے کی کوشش کی تا کہ وہ ٹھیک ھو جائیں۔ ڈھوک کاسب اور گردونواح میں اس وقت علاج کی سہولتیں نہ ھونے کے برابر تھیں۔ آخرکار میرے والد “ھیلاں” کے اک چھوٹے سے ھسپیتال میں انتقال کر گئیے۔ میں اس وقت 4 سال کا تھا۔  میری فیملی اس وقت سخت شاک میں تھی۔اس وقت میری ماں اور ھم نے اپنے رشتہ داروں اور قریبی تعلق داروں کی طرف سے امید رکھی مگر یہ سب کچھ بھت تکلیف دہ تھا۔
سال 2006 میں ، میں اپنی بیوی اور بہن کے ساتھ ڈھوک کاسب آیا (ساتھ میں لاھور سے اک ایڈوکیٹ دوست بھی تھے) ۔ میری یادداشت ابھی تک اتنی تھی کہ میں بغیر کسی سے پوچھے سیدھا اپنے گھر کی لوکیشن پر پہنچ گیا۔
میں چوہدری غلام حیدر گوندل صاحب سے بھی ملا۔ ان کی صحت اچھی تھی اور ابھی تک میرے خاندان والوں کے کئی نام یاد تھے۔ میں اپنے ساتھ اک ڈائری لے گیا تھا جس پر ان لوگوں کے نام تھے جو مجھے یاد تھے یا میری ماں نے بتائے ھوئے تھے۔ میں نے ان کے متعلق بھی پوچھا ، بتایا گیا کہ ان میں زیادہ تر اب زندہ نہی ھیں۔

اب میں “فیس بک”  کے ذریعہ سے   ڈھوک کاسب کے بارے میں کبھی کبھی معلوم کرتا رھتا ھوں۔
میری دعا ھے کہ ڈھوک کاسب ایک مثالی گاؤں بنے جس میں صحت اور تعلیم کی ساری سہولیات موجود ھوں۔

آخرکار ڈھوک کاسب میرا وطن ھے۔—————————————<<

اس کے ڈاکٹر صاحب سے مسلسل  رابطہ  رها.  ایک دن ان کی میل آئی که میں  اپنا پنڈ دیکھنے آ رها هوں.  ان کو  گونمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی رسول کی سو ساله تقریبات میں  مدعو کیا گیا تھا.  28 دسمبر 2012 بروز جمعه میرے پاس براسته واھگه بارڈر ڈھوک کاسب پهنچے.  ان کی پسندیدہ  ڈشز تیار تھی.  ان کی پهلی ملاقات  اور اپنائیت کا احساس  آج بھی موجود هے.  هلکی بارش میں  کھانے کے بعد  وه  اپنے ڈھوک کاسب کی سیر کو نکلے.  ان کی مسز جو ایم ایس سی فزکس هیں همراه تھیں جو گاؤں لسوڑی سے تعلق  رکھتی تھیں.
مجھے  ڈاکٹر صاحب نے اپنے پیچھے  کر دیا.  اور گاؤں کے تاریخی  واقعات بتاتے جاتے
  هلکے آنسوؤں کے ساتھ اپنی جاۓ پیدائش  پهنچے.  جو تھوڑی تبدیلی  کے ساتھ  موجود  تھی.  اسکے بعد ان کے جانوروں  کی حویلی  تھی. اب وھاں رهائش بن چکی تھی.  گھومتے گھومتے  مسجد اور وهاں سے هوتے هوئے.  بابا غلام حیدر کو ملے. جو ڈاکٹر صاحب  کو بچپن میں  سکول داخل  کروا  چکے تھے.  ٹائم کم هونے کی وجه سے ڈاکٹر صاحب 4 بجے کے قریب محبتیں بانٹتے اور محبتیں سمیٹتے  جانے کی تیاری  میں  تھے اس دوران  کافی  دوست بھی وھاں  اکٹھے هو چکے تھے.
ڈاکٹر صاحب کے ساتھ  تحائف کا تبادلہ  هوا. اور وه اداس نظروں کے ساتھ  وهاں سے رسول کالج کے لیے روانہ  هو گئے.

MUHAMMAD NADEEM AKHTAR
DHOK KASIB
nadvad@gmail.com