Skip to content Skip to left sidebar Skip to footer

Ajjowal اجووال

ajjowal

Ajjowal اجووال

By: Azmat Gondal

Introduction:

Ajjowal اجووال is a small village in Tehsil Malakwal, district Mandi Bahauddin. It is situated on Kuthiala road. Almost 27 km from city MBDin and 14 km from tehsil Malakwal. The union Council of Ajjowal is Wara Alam Shah. The total land of this village is 80 Murabas (2000 Acres).

Major Casts:

  • Gondal
  • Ranjha
  • Syed

Population:

The village is consist of round about 300 houses.

Village Culture:

Culture of this village is old Punjabi culture. Mostly people wear here Pakistani national dress Shalwar Qameez, people are divided in families according to their ethnicities.

Main Crops

  1. Wheat
  2. Rice
  3. Sugar Cane

Nearest Villages

  1. Wara Alam Shah
  2. Gohar Sharif
  3. Misranwala
  4. 18 Chak (hakim ma wala)
  5. Shumhari

Famous Personalities:

  • Haji Nazir Ahamd Gondal
  • Tariq Mehmood Gondal (businessman)
  • Sarfraz Ahmad Gondal
  • Syed Mukhtar Hussain Shah (Ex. President Anjuman Fiqah-e-Jafriya Toronto Canada)
  • Syed Ashiq Hussain Shah (Hours Rider)
  • Ch. Mukhtar Ahmad Gondal

There are many people from this village living abroad. Some of them are

  • Syed Shakeel Abbas Bukhari (Spain)
  • Nazir Ahmed Gondal (Germany)
  • Irfan Nazir Gondal (Spain)
  • Sikandar Nazir (France)
  • Syed Allamdar Hussain Shah (Famous Noha Khan In Toronto)
  • Ch. Zafar Iqbal Gondal (Uk)

Social Personalities:

  • Haji Mukhtar Ahmad Gondal
  • Zahid Riaz Gondal
  • Saqib Gondal (Ajjowana)
  • Rafaqat Mukhtar Gondal
  • Shakeel Shah

Highly Qualified Personalities:

  1. Late Syed Sajjad Hussain Shah (Provincial education director of Punjab)
  2. Syed Iftikhar Hussain Shah (Income Tax officer)
  3. Mazhar Iqbal Gondal (Deputy Commissioner in Income Tax )
  4. Shafqat Hussain Shah (Islamabad Police)
  5. Khurram Mukhtar Gondal (MA in Economics)
  6. Lt. Asim
  7. Ch. Faiz Ahmed (Advocate)
  8. Gulam Rasul (Advocate)
  9. Shahid Imran Gondal (Advocate)
  10. Syed Ijaz Hussain Shah (Managing Director ALIGO (AIG))
  11. Syed Aqeel Abbas Bukhari (CSS Qualified)
  12. Shahid Nazeer Gondal (LLB Qualified)
  13. Anayat Gondal (Civil Judge)
  14. Major Khizar Hayat Gondal
  15. Colonel Khizar gondal
  16. Dr. Azmat Gondal (Jinnah hospital Lahore)
  17. Syed Shafqat Shah police officer

Shrines:

There are one famous darbar in this village called by “Bawa Shah Shakur da Darbar”

Shops and Stores:

  • Waheed Major Karyana store
  • Dhabbia di Hatti

Schools in the Village

  • Govt. Boys Primary school
  • Govt. Girls Primary school
  • Sir Syed Public high school
  • Raza Public High School at Gohar Road

Source Of Income:

Main source of income of people is agriculture followed by foreign remittances sent by people who are working in EU, UK and Middle Eastern countries.

Social Welfare Organizations

Ajjowal welfare society is working in this village, but not any authentic organization is working here

Main Crops:

  1. Sugarcane
  2. Rice
  3. Wheat

Problems of the Village:

There are not any good system for the education of boys and girls

May Allah Bless This Village (AAMEEN)


Information provided by: Azmat Gondal

Email Address: azmatzulqarnainsikander@gmail.com

Contact No. 03193731327

2 Comments

  • دادا جی غلام حیدر والد حسن محمد شمہاریہ قوم گکھڑ
    (اجووال ۔حکیماں والہ چک۔شمہاری اور 11 چک )
    Shoaib Aslam whatsapp 03034557532
    Gujranwala kamoke
    #مختصر_تذکرہ_غلام_حیدر_گکھڑ_ولد_حسن #محمد_گکھڑ””
    ______________________________________
    آئے ہو میری قبر پر فاتحہ پڑھنا خدا کے واسطے
    کل تو بھی مجبور ہوگا اس دعا کے واسطے
    ______________________________________
    غلام حیدر گکھڑ عرف حیدر شمہاری وہ عظیم گکھڑ سپوت تھےاور عوام میں ہر دلعزیز تھے جنہوں نے اپنی بہادری اور طاقت کا سکہ بٹھایا اور ہر لڑائی میں فتح حاصل کی۔وہ کھوکھروں سے متعدد لڑائیوں میں بھی کامیاب ہوئے اور گجرات کی مختلف قوموں جن میں سے دو تین قابل ذکر ہیر قوم اور بوسال اور کھوکھر قوم کو نہ صرف اپنے زور بازو سے زیر کیا بلکہ وہ اپکی طاقت اور خاندانی وحشت کے معترف ہوئےبقول غلام بشیر گکھڑ ودیگر کہ غلام حیدر اکیلے دس آدمیوں کو اپنے زور بازو سے یعنی کہ ڈنڈے سوٹے کی لڑائی میں کنٹرول کر لیتے تھے۔
    *****دراز قد****
    _____________
    وہ دراز قد تھے تقریبا سوا چھ فٹ کے قریب قد تھا اور خوبصورت گبھرو جوان جسے لوگ دیکھ کر انکی وحشت سے ڈر جاتے تھے اور ان سے خوف کھاتے تھے کیونکہ لوگ ان سے اچھی طرح واقف تھے۔
    بلا وجہ کسی کو ایذیت نہ دی:
    ______________________
    ۔انہوں نے کسی کو بلا وجہ کبھی نہ مارا نہ تنگ کیا مگر جو ان کو بلاوجہ تنگ کرتا اس کو کبھی چھوڑا نا اور اس پر ظالم کی طرح پیش آتے ۔تقریبا 6 من کے قریب وزن اٹھا لیتے تھے اور ہر مقابلہ میں کسی کو جیتنے نہ دیا اور بری طرح سے ہرایا۔
    ٹھیکری پھینکنے کا فن:
    _________________
    وہ ٹھیکری پھینکنے کے فن میں بھی ماہر تھے اور وہ 2 ایکڑ دور تک ٹھیکری پھینکنے کی صلاحیت رکھتے تھے اس فن میں بھی کوئی ان کا مقابلہ نہ کرسکا۔مقابلے لیے بہت آئے مگر ناکام ہوکر ہی گئے ۔اللہ نے غلام حیدر گکھڑ کو زندگی میں بہت عزت دی ۔پستول کی گولی عموما صرف ایک ایکڑ دور جاتی ہے اس کے علاوہ عام بندوق کی گولی بھی دو ایکڑ تک نہیں جاتی۔مگر غلام حیدر گکھڑ صاحب دو ایکڑ دور ٹھیکری اپنے زور بازو سے پھینکتے تھے ۔میرا آج کے لوگوں کو بھی کھلا چیلنج ہے اگر کوئی یہ کر سکتا ہے تو آئے کامونکی گوجرانولہ میں ۔میرا رابطہ نمبر ہے یہ اور میرا نام شعیب اسلم گکھڑ ہے۔ 03034557532
    جمپ لگانے( چھال مارنے) کا فن:
    ________
    اور سب سے نمایاں کارنامہ جمپ لگانا یعنی کہ چھال مارنا وہ تقریبا 18 یا 20 فٹ کے فاصلے تک جمپ لگاتے رہے بہت لوگوں نے اس دور میں مقابلہ کیا مگر وہ پیچھے ہی رہے اور ان کی طاقت کے معترف ہوکر ہی پلٹے۔ایک شخص نواب قوم میراثی عرف نابو میراثی بھیڑیں چرا رہا تھا کہ اس کو وہ جگہ نظر آئی جدھر غلام حیدر گکھڑ صاحب جمپ لگاتے تھے یعنی کہ چھالیں مارنے کی پریکٹس مشق کیا کرتے تھے وہ جگہ چونکہ خاص ہوتی ہے اور ہر جمپر نے اپنے حساب سے گوڈی کرکے بنائی ہوتی ہے وہاں تک جہاں تک جمپر یعنی چھال مارنے والے نے گرنا ہوتا ہے اگر کوئی دوسرا آدمی وہ جگہ استعمال کرے تو اس کو نقصان پہنچتا ہے بہرحال نواب میراثی تھا تو جمپر ہی مگر معمولی جمپر تھا وہ تقریبا 12 فٹ کے فاصلے تک چھال مارتا تھا۔اس نے جب جمپ لگایا تو وہ گوڈی کی ہوئی جگہ سے پیچھے گرا اور اس کے گھٹنے اتر گئے اور وہ تقریبا 5 سال تک چل نہ سکا اور لوگوں نے بھی خوب اس کو بے عزت کیا۔
    رعب ودبدبہ:
    _________
    ان کا رعب ودبدبہ ایسا تھاکسی شخص کی اتنی جرات نہ تھی کہ ان سے بدکلامی کرے یا یا کوئی اور اونچ نیچ کرے کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کا انجام برا ہوگا۔کوڈی یعنی کہ کبڈی کھیلتے وقت جب لوگوں کا ہجوم ہوجاتا تو غلام حیدر گکھڑ کو کہا جاتا کہ ہجوم سے آدمیوں کو پیچھے ہٹاو ۔لوگوں ان کا نام سن کر ہی ڈر جاتے تھے ۔اگر دوران کبڈی کھیل کے ٹیموں کے درمیان جھگڑا ہوتا تو وہ کہتے کہ غلام حیدر گکھڑ ادھر ہی ہے اسی وجہ سے ان کا نام سن کر ہی لوگ خوف کھاتے تھے۔

    رہن سہن اور کھانے پینے کا نظام:
    ________________________
    بشیر گکھڑ بیان کرتے ہیں کہ جتنی خوراک ہمارے خاندان میں انہوں نے کھائی اتنی ہمارے خاندان میں کسی نے نہیں کھائی روزانہ آدھا کلو مکھن اور اور اس کے علاوہ دودھ وغیرہ بھی کافی پیتے تھے ۔رہن سہن کے حوالہ سے بات کریں تو وہ روزانہ صبح سویرے نہاتے تھے بلا ناغہ اور ساری زندگی یہ اصول قائم رکھا اور سو سال کی عمر میں بھی نہانا نہ چھوڑا۔اب بھی وہ آخری سالوں میں بھی خوراک کو بہتر رکھا وہ روزانہ حلوہ کھاتے تھے اور ایک وقت میں دو دو پلیٹیں کھا لیتے تھے 95 سال کی عمر میں بھی اس کے علاوہ روزانہ انڈہ اور دودھ بھی پیتے تھے وہ جانتے تھے کہ اگر یہ سب چیزیں چھوڑیں تو میں صرف چارپائی کا ہی ہو کر رہ جائوں گا اسلئیے وہ پرہیز بالکل بھی نہ کرتے تھے۔
    غلام حیدر گکھڑ صاحب کہتے تھے کہ نہانے کے بغیر انسان کو ہوش نہیں آتی۔
    اس کے علاوہ وہ روزانہ شیو کرواتے رہے اپنی ساری جوانی میں حتی کی سو سال کی عمر میں بھی روزانہ نہانا صبح کی نماز پڑھنا اللہ توبہ کرنا اچھا کھانا پینا جسم کو تیل لگانا اور وہ اپنے جسم کو بہت سنوار کر رکھتے تھے جیب میں کنگھا شیشہ اس کے علاوہ بال کالے کرنے کا شوق بھی بہت تھا ۔دیکھنے سے تو ایسے لگتے ہی نہیں تھے کہ ان کی عمر سو سال کے قریب ہو گئی ہے۔
    علامہ اقبال کا شعر ہے:
    عطار ہو رومی ہو غزالی ہو
    کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر آگاہی
    #گکھڑ ماں کا حوصلہ:
    _______________
    عغیم سپوت گکھڑان غلام حیدر گکھڑ کی ماں کا حوصلہ دیکھیے کہ ایک مرتبہ غلام حیدر گکھڑ کا کھوکھروں کے ساتھ جھگڑا ہوا اس کی وجہ یہ تھی کی کھوکھر غلام حیدر گکھڑ صاحب کے چارہ کے کھیت میں مویشی لے آئے اور چرانے لگے غلام حیدر گکھڑ نے ان کو منع کیا مگر وہ باز نہ آئے جس کا خمیازہ ان کو پھر بگھتنا پڑا اور اور کھوکھر لہو لہان ہوئے بغیر نہ رہ سکے اس کے بعدجب کھوکھر خاندان بدلہ لینے آیا تو گکھڑ ماں بجائے یہ کہنے کے کہ لڑائی جھگڑا نہ کرو اپنے گکھڑ بیٹوں کو یہ کہا کہ اگر کوئی کسر باقی رہتی ہے تو وہ بھی نکال لو اس کے بعد گکھڑ ماں کی اس بات پر گائوں میں خوب چرچا ہوا کہ ماں تو اپنی اولاد کو لڑائی جھگڑے سے منع کرتی ہے کہ کہیں میرے لعل کو کوئی نقصان نہ پہنچے یعنی کہ ماں کا حوصلہ اولاد کے حق میں بہت کم ہوتا ہےمگر اس ماں کا تو عظیم ہی حوصلہ ہے۔
    والد حسن محمد گکھڑ صاحب کے چند اوصاف:
    ___________________________________
    حسن محمد گکھڑ صاحب بھی خوب دراز قد تھے اور ان کا سرخ چہرا اور وہ حسین وجمیل تھے اور وہ بھی بہت رعب ودبدیے کے مالک تھے۔یہ بات بھی سننے میں آئی ہے کہ وہ ڈاکیا کی ملازمت کرتے تھے اور تھوڑے پڑھے لکھے بھی تھے۔
    حسن محمد گکھڑ صاحب کے بھائی:
    __________________________
    1: اکبر علی گکھڑ
    2:غلام محمد گکھڑ
    3:غلام حیدر گکھڑ
    4:غلام قادر گکھڑ
    ان کی چار بہنیں تھیں ۔
    وہ علاقے جہاں رہائش اختیار کی:
    ________________________
    1: گکھڑ منڈی ( چک سنتہ) رتی ٹھٹھ
    2:اجووال (گجرات)
    3:حکیماں والہ (گجرات)

    4:گیارہ چک ( 45چک گجرات)
    5:گائوں شمیر تحصیل کامونکے گوجرانوالہ
    6: کامونکے شہر
    پیشہ:
    ——
    اس خاندان کا پیشہ شروع ہی سے کاشت کاری زراعت کا رہا ہے مگر اب کئ اپنی زمین بیچ چکے ہیں اور کاروبار کرتے ہیں۔
    زمینوں کی کاشتکاری کی آفر:
    ______________________
    بہت سے جاگیرداروں نے غلام حیدر گکھڑ صاحب کے خاندان کو زمینوں کی آفر دی کہ آپ ہماری زمین کو آباد کرو بطور کاشت کاری استعمال کرو کیونکہ لوگ جانتے تھے کہ جدھر یہ اپنا ڈیرہ لگاتے ہیں وہاں کوئی چور اور رسہ گیر نہیں آ سکتا اور نہ ہی کوئی فصل کو نقصان پہنچا سکتا ہے ۔
    مانک بوسال کنگ آف دی بار اور گکھڑ خاندان:
    __________________________________
    بشیر گکھڑ ( شمہاری) ماسٹر منظور گکھڑ محمد نزیر گکھڑ اور دیگر بیان کرتے ہیں کہ جب انہوں نے ضلع گوجرانوالہ کے قصبہ گکھڑ منڈی کے قریبی گائوں چک سنتہ سے ہجرت کی اسکی وجہ یہ تھی کہ اس گائوں میں طاعون کی وبا پھیل گئی تھی جسکی وجہ بہت سے لوگوں کی اموات واقع ہو گئی تھی اس لیے انہوں نے بہاول نگر میں ایک مربع زمین خریدی چونکہ وہاں ان کے سندھو قوم رشتے دار تھے لہذا ان کے کہنے پر یہ زمین خریدی مگر موافق نہ آئی کیونکہ جب وہ وہاں گئے تو وہاں آندھی اور طوفان آیا یوں کہہ لیں کہ وہ ریتلا علاقہ ہے اور وہاں ریگستان بہت ہیں اسلئیے بابا جی حسن محمد گکھڑ صاحب کو یہ بات گوارا نہ کی کہ انکی اولاد ادھر ذلیل وخوار ہو جائے گی اس لئے یہ زمین واپس کر دی یا کسی اور کو بیچ دی ۔اس کے بعد جب وہ راستے میں ٹرین سے واپس آرہے تھے تو اک کھتری سے ملاقات ہوئی اس نے گجرات میں زمین کے متعلق بتایا پھر گجرات زمین خریدی۔جب انہوں نے گجرات کے علاقہ میں اپنا ڈیرہ بسایا تو اس وقت چوری وغیرہ عام تھی اور اور وہاں ایک رسہ گیر چودھری مانک بوسال تھا جس کے بندے لوگوں کے مال مویشی اور دیگر مال چراتے تھے۔اس کے پاس 100 کی تعداد کے قریب بھینسیں ہوتی تھیں یا اس سے بھی زیادہ ہوتی تھیں اور وہ جب چاہتا لوگوں کے کھیتوں میں چرانے کے لیے بھیج دیتا۔ اور لوگ ان سے تنگ تھے مگر لوگ کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ بے بس تھے جو شخص چوری کرتا وہ بابا مانک کے ڈیرے پر چلا جاتا تھا کیونکہ وہاں کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی تھی۔وہاں مانک بوسال اس ان آدمیوں کو اسلحہ دے دیتا اور اپنے نوکروں میں شامل کر لیتا تھا۔یہی وجہ تھی پولیس وہاں جانے کی جرئت نہ کرتی تھی اگر جاتی بھی تھی تووہ مانک بوسال صاحب کے ماتحت ہی ہوتی تھی۔انگریز برطانوی حکومت نے اسی وجہ سے مانک بوسال کو کنگ آف دی بار کا خطاب دیا تھا چونکہ دریائوں کے کناروں کے ساتھ ساتھ مٹی کی تہہ نشینی سے جو علاقہ بنتاہے اسے بار کہتے ہیں اسی وجہ سے اسے کنگ آف دی بار کا خطاب برطانوی حکومت کی طرف سے ملا۔اس کے علاوہ بار کا مطلب علاقہ بھی ہوتا ہے یعنی کہ علاقے کا بادشاہ۔
    لہذا جب غلام حیدر گکھڑ کے خاندان نے ڈیرہ بسایا تو اس کے 4 یا 5 دن بعد مانک بوسال اپنے نوکروں کے ساتھ آیا ان کے ڈیرے پر اور سلام کیا جب بھی مانک بوسال کہیں جاتا تھا تو اس کے ساتھ دو گھوڑیاں اور نوکر پیچھے اور دو آگےگھوڑیوں پر ہوتے تھے اور درمیان میں مانک بوسال ایک گھوڑی پر خود ہوتا تھا اس زمانے میں بھی اسکے پاس پستول ہوتا تھا مانک بوسال کی گکھڑ ڈیرے پر آنے کی وجہ یہ تھ کہ اس کے ایک نوکر نے آکر بتایا کہ فلاں فلاں ایک گھر نیا آباد ہوا ہے اور وہ اپنا مال مویشی باہر ہی کھلا باندھتا ہے انکو آپ (مانک بوسال) سے ڈر نہیں لگتا کہ اس کے نوکر بندے چراکر لے جائیں گے ۔یہ سن کر مانک بوسال صاحب نے کہا کہ چلو میرے ساتھ ان کے پاس چلتے ہیں اور ان کو دیکھتے ہیں کہ کیا صورت حال ہے۔ جب مانک بوسال صاحب غلام حیدر گکھڑ صاحب کے ڈیرے پر اپنے نوکروں کے ساتھ آئے اور سلام کیا غلام حیدر گکھڑ کے والدصاحب حسن محمد گکھڑ صاحب چارپائی پر بیٹھے ہوئے تھے مانک بوسال بھی جاکر ان کے پاس بیٹھ گیا اور ہمکلام ہوا اور کہنے لگا کہ بزرگو آپ کدھر سے آئے ہو اور کس لئے آئے ہو؟ حسن محمد گکھڑ نے کہا کہ ہم گکھڑ منڈی سے آئے ہیں اور ادھر روزی کمانے کے لئے آئے ہیں ۔مانک بوسال ان سے کہنے لگا کہ آپ کو مانک بوسال سے ڈر نہیں لگتا ۔کہ آپ نے اپنا مال مویشی وغیرہ باہر ہی کھلا باندھا ہے اور واڑے میں نہیں باندھا ؟یہ سوال مانک بوسال نے اس لئیے پوچھا تھا کیونکہ اس نے ابھی اپنا تعارف نہیں کروایا تھا۔ ____جواب میں حسن محمد گکھڑ کہتے ہیں کہ مانک بوسال ہو گا تو اپنے گھر ہی ہوگا وہ بندے تو نہیں کھاتا ایک میں ہوں حسن محمد گکھڑ اور چار میرے بیٹے ہیں جس کسی نے بھی کوئی چیز چرانی ہے پہلے وہ ہم کو مار ے گا تو پھر ہی چرائے گا نہ ۔یہ جواب سن کر مانک بوسال ہکا بکا رہ گیا اور دو منٹ کے لیے پریشان ہو گیا پھر اس کے بعد جب اس نے چاروں گکھڑ سپوت دیکھے چار سپوت جو تھے وہ سب ایک سے بڑھ کر ایک تھے چوتھا سپوت جو تھا اس نے زمین کو پانی لگایا ہو تھا اس کا نام اکبر گکھڑ وہ بھی پھر آگیا اور گھوڑی سے اتر کر ملا چودھری مانک بوسال نے جب سب جوانوں کو دیکھا تو ان کو مان گیا کہ یہ واقعی ہی خاص بندے ہیں ورنہ کسی کی اتنی جرائت نہ تھی یوں مجھ سے ہمکلام ہوتا ۔اور مجھ مانک بوسال کے ڈر سے تو گائوں کے سب لوگ شام ہوتے ہی اپنا سارا مال مویشی اور دیگر سامان حویلیوں وغیرہ میں لے جاتے ہیں تا کہ محفوظ رہے مگر یہاں تو کام ہی سارا الٹ ہے یہ تو بالکل نڈر اور بےخوف اور لڑاکو نوجوان ہیں ۔پھر مانک بوسال نے اپنا تعارف کروادیا۔اسی لیے مانک بوسال جاتے وقت کہنے لگا “””بزرگو اسی تے بندیاں دے بھکھے آں ،جے سانوں کوئی لوڑ پئی تے اسی تہاڈا بندہ لے جاواں دے “””” چونکہ وہ جانگلی بولتا تھا اس لیے اس کا لہجہ تھوڑا مختلف تھا ۔مانک بوسال نے کہا کہ آپ ادھر جو چاہے کرو آپ کو میں کچھ نہیں کہوں گا بلکہ آپ کی طرف رخ بھی نہ کروں گا اس کے بعد سے اس گائوں میں کوئی چوری چکاری نہ ہوئی بلکہ غلام حیدر گکھڑ کے والد صاحب نےخود مانک بوسال کو سختی سے کہا تھا کہ اگر ہمارا کوئی نقصان ہوا تو ہم تمہارے ساتھ بہت بری طرح سے پیش آئیں گے۔چنانچہ لوگوں میں ان
    گکھڑوں کے چرچے ہونے لگے کہ انہوں نے مانک بوسال کو بھی اپنا جادو دکھا دیا ہے اور اپنا آپ منوایا ہے ۔اس کے بعد مانک بوسال کا غلام حیدر گکھڑ کے خاندان کے ساتھ بہت اچھا تعلق رہا اور دونوں خاندان ایک دوسرے کے ہاں آتے جاتے رہے بلکہ جب کوئی غلام حیدر گکھڑ سے جھگڑنے کی کوشش کرتا تو مانک بوسال اپنے نوکروں کے ذریعے پیغام بھیجواتا کہ گکھڑوں کے ساتھ مت جھگڑنا بھاری نقصان اٹھاو گے۔اس کے علاوہ مانک بوسال کا ایک بیٹا بھی غلام حیدر گکھڑ صاحب کے بھائی غلام قادر کے ساتھ پڑھتا تھا اور بہت اچھا دوست تھا۔مگر مانک بوسال خود ان پڑھ تھا۔
    ایک سکھ خطری کے ذریعے #ہندوستان خط: ________________________________
    ایک سکھ خطری جو کہ ہندوستان سے آیا ہو تھا اس کے ذریعے ہندوستان میں غلام حیدر گکھڑ نے خط بھیجا کہ جو یہاں آئے گا اور میرا مقابلہ کرے گا ہم اس کو چار ہزار روپیہ دیں گے ۔مگر خطری کچھ مہینوں کے بعد واپس آیا اور اس نے بتایا کہ کوئی آپ کا مقابل کرنے والہ ہے ہی نہیں مجھے ملا ہی نہیں چھال مارنے میں اور وزن اٹھانے میں اور پتھر پھینکنے میں۔4000 روپیہ چونکہ اس زمانے میں بہت اہمیت کا حامل تھا ۔عام بندے کے پاس اتنی رقم نہ ہوتی تھی۔
    وفات:
    ____
    وہ رضائے الہی سے تقریبا سو سال کی عمر میں پیر والے دن 2015 ا اس جہان فانی سے رخصت ہوئے مگر ان کے کارناموں کا تذکرہ آج بھی لوگ کرتے ہیں۔جب ان کا جنازہ لے جایا جا رہا تھا تو ہلکی ہلکی بارش کی بوندیں پڑ رہی تھی اور خوشگوار موسم تھا ۔یہ اللہ کی خاص رحمتیں بھی ایسے لوگوں پر ہوتی ہیں جو نیک وکار ہوں اور اللہ کے خاص بندے ہوں۔

    پیدائش مسمی بمقام #گکھڑ منڈی1915
    وفات مسمی بمقام #کامونکی تحصیل 2015

    وہی جہاں ہے ترے لیے جسکو تو کرے پیدا

    یہ سنگ وخشت نہیں جو تری نگاہ میں ہے
    تحریر وتحقیق: شعیب اسلم قوم #گکھڑ ساکن پاکستان صوبہ پنجاب

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.