Chak No. 45 چک نمبر
Chak No. 45 چک نمبر
History:
The Government of British India launched a program in early years of 19th century to bring the forest like land which is currently in District Malakwal into agricultural use. For this reason the launched a scheme called ‘Gori Pal scheme’ to give a package of 56 acres of land to each farmers selected from different regions of Punjab. Around 1914, many tribes from different villages who were already farmers there but did not had much land, got benefited from this scheme and got land in form of ‘Ghoris’ (named on female horse).
The farmers came to this village in decade of 1914th and removed the forest and started cultivating the land. The land proved to be very fertile which was very much appreciated by the new farmers. The main tribes came from different villages like ‘Bharoki Cheema’ near Wazirabad, Saroki Cheema, Jaamke Cheema, Sahi ke, etc. Because the casts of those farmers originally was Cheema, that’s why Cheema is the dominant cast of the village.
Location:
Chak 45 چک نمبرTehsil Malakwal, District Mandi Bahauddin. The village structure was designed by Government and has all proper wide streets, land for mosque in center, school, land for ‘Numberdar’ etc, civil servants of village and their lands as salary e.g. Imam masjid, sweepers, etc.
Founder of the village
No single founder. Land was allotted farmers who cultivated and formed the village. Cast of the Founder was Cheema This is a mid sized village with no prominent names of streets. On the south eastern corner there exists a street with Christian population along with their church.
Neighboring villages, towns and geographical landmarks:
It is approximately 38 KM South West of the city of mbdin. On the North it is bordered to Tibba Manak Busal (the residence of politicians Nawaz and Iqbal Busal) and on southern side it is bordered with Chak. Bar Musa is bordered on the North western corner of the village territory.
Nature of People:
Mostly habitants of Chak 45 are farmers, on average the youth has at least attend a high school.
Source of Income:
The main source of income of villagers in Chak 45 is through agriculture. The fertile land of Chak 45 produces excellent quality of citrus of different kinds which helps in earning the farmer a good amount annually.
Famous Personalities
- Atta Mohammad Cheema
- Dr. Azam Cheema
- Ehsan Ullah Cheema
- Muhammad Arif Cheema (sss Retired)
- Shabbir Ahmed Cheema (Retired Sr. Head Master)
Highly Qualified Personalities:
- Dr. Mohammad Azam Cheema (running Cheema Hospital in Gujranwala)
- Atta Mohammad Cheema (Retired Director Education)
- Nazar Mohammad Cheema (Retired High School Head Master)
Schools, Collages, Mosques and Madrasas:
- Govt Middle School for Boys
- Govt Primary School for Girls
Main castes
- Cheema
- Gakkhar
Way of living:
Peoples of the village live a simple life. They have very friendly behavior. Peoples are very much hostile, peaceful and sincere
Media Facilities:
In the village Television, Radio, Tape Recorder, PTCL Phones and Mobile Phones with services of all the Telecom companies are present in almost every house.
Flora and Fauna:
As the area is very productive both animals and plants love to stay here.
Main crops and fruits:
- Citrus (oranges of different kinds)
- Wheat
- Rice
- Sugar Can
- Potato
Domestic Animals:
- Buffalos (bhainsein)
- Cows and Bulls (gaey aur bael)
- Sheeps (bhairain)
- Goats (bakrian)
- Horses (ghoray)
- Donkeys (gadhay)
- Dogs (kutay)
- Cats (Bilian)
- Hens (murgean)
- Rabbits (khargosh)
- Pigeons (kabutar)
- Ducks (batkhain)
Wild animals found in the villagers land are:
- Jackals (geedarr)
- Snakes (saanp)
- Pigs (sours)
- Wild Cats (jangly billay)
- Parrots (totay)
- Sparrows and Finches (chirian)
Main Problems of this Village
- Problems faced by people of the village
- No medical facility available from Government
- School are poor staffed.
Due high illiteracy in the village, the local rivalries and conflicts are very common (typical on land own ship or water irrigation etc.) among different families which often cause violence and bloodshed. This has also been a main reason for people to move city to look for better future of their children.
7 Comments
Gakkhar brother
There is one more cast is Gakkhar
بشیر احمد چیمہ (ریٹائر ڈپٹی کنٹرولر اف بورڈ اف انٹرمیڈیٹ اینڈ سکینڈری ایجوکیشن گوجرانوالہ )
ہمارے دادا غلام حیدر شمہاری کا گاوں المعروف حیدر شمہاریہ
مجھے لگتا ہے 11 چک والے غلام حیدر شمہاری کو بھول گئے ہیں
غلام حیدر شمہاری اک بڑی شخصیت کا نام ہے
#مختصر_تذکرہ_غلام_حیدر_گکھڑ_ولد_حسن #محمد_گکھڑ””
______________________________________
آئے ہو میری قبر پر فاتحہ پڑھنا خدا کے واسطے
کل تو بھی مجبور ہوگا اس دعا کے واسطے
______________________________________
غلام حیدر گکھڑ عرف حیدر شمہاری وہ عظیم گکھڑ سپوت تھےاور عوام میں ہر دلعزیز تھے جنہوں نے اپنی بہادری اور طاقت کا سکہ بٹھایا اور ہر لڑائی میں فتح حاصل کی۔وہ کھوکھروں سے متعدد لڑائیوں میں بھی کامیاب ہوئے اور گجرات کی مختلف قوموں جن میں سے دو تین قابل ذکر ہیر قوم اور بوسال اور کھوکھر قوم کو نہ صرف اپنے زور بازو سے زیر کیا بلکہ وہ اپکی طاقت اور خاندانی وحشت کے معترف ہوئےبقول غلام بشیر گکھڑ ودیگر کہ غلام حیدر اکیلے دس آدمیوں کو اپنے زور بازو سے یعنی کہ ڈنڈے سوٹے کی لڑائی میں کنٹرول کر لیتے تھے۔
*****دراز قد****
_____________
وہ دراز قد تھے تقریبا سوا چھ فٹ کے قریب قد تھا اور خوبصورت گبھرو جوان جسے لوگ دیکھ کر انکی وحشت سے ڈر جاتے تھے اور ان سے خوف کھاتے تھے کیونکہ لوگ ان سے اچھی طرح واقف تھے۔
بلا وجہ کسی کو ایذیت نہ دی:
______________________
۔انہوں نے کسی کو بلا وجہ کبھی نہ مارا نہ تنگ کیا مگر جو ان کو بلاوجہ تنگ کرتا اس کو کبھی چھوڑا نا اور اس پر ظالم کی طرح پیش آتے ۔تقریبا 6 من کے قریب وزن اٹھا لیتے تھے اور ہر مقابلہ میں کسی کو جیتنے نہ دیا اور بری طرح سے ہرایا۔
ٹھیکری پھینکنے کا فن:
_________________
وہ ٹھیکری پھینکنے کے فن میں بھی ماہر تھے اور وہ 2 ایکڑ دور تک ٹھیکری پھینکنے کی صلاحیت رکھتے تھے اس فن میں بھی کوئی ان کا مقابلہ نہ کرسکا۔مقابلے لیے بہت آئے مگر ناکام ہوکر ہی گئے ۔اللہ نے غلام حیدر گکھڑ کو زندگی میں بہت عزت دی ۔پستول کی گولی عموما صرف ایک ایکڑ دور جاتی ہے اس کے علاوہ عام بندوق کی گولی بھی دو ایکڑ تک نہیں جاتی۔مگر غلام حیدر گکھڑ صاحب دو ایکڑ دور ٹھیکری اپنے زور بازو سے پھینکتے تھے ۔میرا آج کے لوگوں کو بھی کھلا چیلنج ہے اگر کوئی یہ کر سکتا ہے تو آئے کامونکی گوجرانولہ میں ۔میرا رابطہ نمبر ہے یہ اور میرا نام شعیب اسلم گکھڑ ہے۔ 03034557532
جمپ لگانے( چھال مارنے) کا فن:
________
اور سب سے نمایاں کارنامہ جمپ لگانا یعنی کہ چھال مارنا وہ تقریبا 18 یا 20 فٹ کے فاصلے تک جمپ لگاتے رہے بہت لوگوں نے اس دور میں مقابلہ کیا مگر وہ پیچھے ہی رہے اور ان کی طاقت کے معترف ہوکر ہی پلٹے۔ایک شخص نواب قوم میراثی عرف نابو میراثی بھیڑیں چرا رہا تھا کہ اس کو وہ جگہ نظر آئی جدھر غلام حیدر گکھڑ صاحب جمپ لگاتے تھے یعنی کہ چھالیں مارنے کی پریکٹس مشق کیا کرتے تھے وہ جگہ چونکہ خاص ہوتی ہے اور ہر جمپر نے اپنے حساب سے گوڈی کرکے بنائی ہوتی ہے وہاں تک جہاں تک جمپر یعنی چھال مارنے والے نے گرنا ہوتا ہے اگر کوئی دوسرا آدمی وہ جگہ استعمال کرے تو اس کو نقصان پہنچتا ہے بہرحال نواب میراثی تھا تو جمپر ہی مگر معمولی جمپر تھا وہ تقریبا 12 فٹ کے فاصلے تک چھال مارتا تھا۔اس نے جب جمپ لگایا تو وہ گوڈی کی ہوئی جگہ سے پیچھے گرا اور اس کے گھٹنے اتر گئے اور وہ تقریبا 5 سال تک چل نہ سکا اور لوگوں نے بھی خوب اس کو بے عزت کیا۔
رعب ودبدبہ:
_________
ان کا رعب ودبدبہ ایسا تھاکسی شخص کی اتنی جرات نہ تھی کہ ان سے بدکلامی کرے یا یا کوئی اور اونچ نیچ کرے کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کا انجام برا ہوگا۔کوڈی یعنی کہ کبڈی کھیلتے وقت جب لوگوں کا ہجوم ہوجاتا تو غلام حیدر گکھڑ کو کہا جاتا کہ ہجوم سے آدمیوں کو پیچھے ہٹاو ۔لوگوں ان کا نام سن کر ہی ڈر جاتے تھے ۔اگر دوران کبڈی کھیل کے ٹیموں کے درمیان جھگڑا ہوتا تو وہ کہتے کہ غلام حیدر گکھڑ ادھر ہی ہے اسی وجہ سے ان کا نام سن کر ہی لوگ خوف کھاتے تھے۔
رہن سہن اور کھانے پینے کا نظام:
________________________
بشیر گکھڑ بیان کرتے ہیں کہ جتنی خوراک ہمارے خاندان میں انہوں نے کھائی اتنی ہمارے خاندان میں کسی نے نہیں کھائی روزانہ آدھا کلو مکھن اور اور اس کے علاوہ دودھ وغیرہ بھی کافی پیتے تھے ۔رہن سہن کے حوالہ سے بات کریں تو وہ روزانہ صبح سویرے نہاتے تھے بلا ناغہ اور ساری زندگی یہ اصول قائم رکھا اور سو سال کی عمر میں بھی نہانا نہ چھوڑا۔اب بھی وہ آخری سالوں میں بھی خوراک کو بہتر رکھا وہ روزانہ حلوہ کھاتے تھے اور ایک وقت میں دو دو پلیٹیں کھا لیتے تھے 95 سال کی عمر میں بھی اس کے علاوہ روزانہ انڈہ اور دودھ بھی پیتے تھے وہ جانتے تھے کہ اگر یہ سب چیزیں چھوڑیں تو میں صرف چارپائی کا ہی ہو کر رہ جائوں گا اسلئیے وہ پرہیز بالکل بھی نہ کرتے تھے۔
غلام حیدر گکھڑ صاحب کہتے تھے کہ نہانے کے بغیر انسان کو ہوش نہیں آتی۔
اس کے علاوہ وہ روزانہ شیو کرواتے رہے اپنی ساری جوانی میں حتی کی سو سال کی عمر میں بھی روزانہ نہانا صبح کی نماز پڑھنا اللہ توبہ کرنا اچھا کھانا پینا جسم کو تیل لگانا اور وہ اپنے جسم کو بہت سنوار کر رکھتے تھے جیب میں کنگھا شیشہ اس کے علاوہ بال کالے کرنے کا شوق بھی بہت تھا ۔دیکھنے سے تو ایسے لگتے ہی نہیں تھے کہ ان کی عمر سو سال کے قریب ہو گئی ہے۔
علامہ اقبال کا شعر ہے:
عطار ہو رومی ہو غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر آگاہی
#گکھڑ ماں کا حوصلہ:
_______________
عغیم سپوت گکھڑان غلام حیدر گکھڑ کی ماں کا حوصلہ دیکھیے کہ ایک مرتبہ غلام حیدر گکھڑ کا کھوکھروں کے ساتھ جھگڑا ہوا اس کی وجہ یہ تھی کی کھوکھر غلام حیدر گکھڑ صاحب کے چارہ کے کھیت میں مویشی لے آئے اور چرانے لگے غلام حیدر گکھڑ نے ان کو منع کیا مگر وہ باز نہ آئے جس کا خمیازہ ان کو پھر بگھتنا پڑا اور اور کھوکھر لہو لہان ہوئے بغیر نہ رہ سکے اس کے بعدجب کھوکھر خاندان بدلہ لینے آیا تو گکھڑ ماں بجائے یہ کہنے کے کہ لڑائی جھگڑا نہ کرو اپنے گکھڑ بیٹوں کو یہ کہا کہ اگر کوئی کسر باقی رہتی ہے تو وہ بھی نکال لو اس کے بعد گکھڑ ماں کی اس بات پر گائوں میں خوب چرچا ہوا کہ ماں تو اپنی اولاد کو لڑائی جھگڑے سے منع کرتی ہے کہ کہیں میرے لعل کو کوئی نقصان نہ پہنچے یعنی کہ ماں کا حوصلہ اولاد کے حق میں بہت کم ہوتا ہےمگر اس ماں کا تو عظیم ہی حوصلہ ہے۔
والد حسن محمد گکھڑ صاحب کے چند اوصاف:
___________________________________
حسن محمد گکھڑ صاحب بھی خوب دراز قد تھے اور ان کا سرخ چہرا اور وہ حسین وجمیل تھے اور وہ بھی بہت رعب ودبدیے کے مالک تھے۔یہ بات بھی سننے میں آئی ہے کہ وہ ڈاکیا کی ملازمت کرتے تھے اور تھوڑے پڑھے لکھے بھی تھے۔
حسن محمد گکھڑ صاحب کے بھائی:
__________________________
1: اکبر علی گکھڑ
2:غلام محمد گکھڑ
3:غلام حیدر گکھڑ
4:غلام قادر گکھڑ
ان کی چار بہنیں تھیں ۔
وہ علاقے جہاں رہائش اختیار کی:
________________________
1: گکھڑ منڈی ( چک سنتہ) رتی ٹھٹھ
2:اجووال (گجرات)
3:حکیماں والہ (گجرات)
4:گیارہ چک ( 45چک گجرات)
5:گائوں شمیر تحصیل کامونکے گوجرانوالہ
6: کامونکے شہر
پیشہ:
——
اس خاندان کا پیشہ شروع ہی سے کاشت کاری زراعت کا رہا ہے مگر اب کئ اپنی زمین بیچ چکے ہیں اور کاروبار کرتے ہیں۔
زمینوں کی کاشتکاری کی آفر:
______________________
بہت سے جاگیرداروں نے غلام حیدر گکھڑ صاحب کے خاندان کو زمینوں کی آفر دی کہ آپ ہماری زمین کو آباد کرو بطور کاشت کاری استعمال کرو کیونکہ لوگ جانتے تھے کہ جدھر یہ اپنا ڈیرہ لگاتے ہیں وہاں کوئی چور اور رسہ گیر نہیں آ سکتا اور نہ ہی کوئی فصل کو نقصان پہنچا سکتا ہے ۔
مانک بوسال کنگ آف دی بار اور گکھڑ خاندان:
__________________________________
بشیر گکھڑ ( شمہاری) ماسٹر منظور گکھڑ محمد نزیر گکھڑ اور دیگر بیان کرتے ہیں کہ جب انہوں نے ضلع گوجرانوالہ کے قصبہ گکھڑ منڈی کے قریبی گائوں چک سنتہ سے ہجرت کی اسکی وجہ یہ تھی کہ اس گائوں میں طاعون کی وبا پھیل گئی تھی جسکی وجہ بہت سے لوگوں کی اموات واقع ہو گئی تھی اس لیے انہوں نے بہاول نگر میں ایک مربع زمین خریدی چونکہ وہاں ان کے سندھو قوم رشتے دار تھے لہذا ان کے کہنے پر یہ زمین خریدی مگر موافق نہ آئی کیونکہ جب وہ وہاں گئے تو وہاں آندھی اور طوفان آیا یوں کہہ لیں کہ وہ ریتلا علاقہ ہے اور وہاں ریگستان بہت ہیں اسلئیے بابا جی حسن محمد گکھڑ صاحب کو یہ بات گوارا نہ کی کہ انکی اولاد ادھر ذلیل وخوار ہو جائے گی اس لئے یہ زمین واپس کر دی یا کسی اور کو بیچ دی ۔اس کے بعد جب وہ راستے میں ٹرین سے واپس آرہے تھے تو اک کھتری سے ملاقات ہوئی اس نے گجرات میں زمین کے متعلق بتایا پھر گجرات زمین خریدی۔جب انہوں نے گجرات کے علاقہ میں اپنا ڈیرہ بسایا تو اس وقت چوری وغیرہ عام تھی اور اور وہاں ایک رسہ گیر چودھری مانک بوسال تھا جس کے بندے لوگوں کے مال مویشی اور دیگر مال چراتے تھے۔اس کے پاس 100 کی تعداد کے قریب بھینسیں ہوتی تھیں یا اس سے بھی زیادہ ہوتی تھیں اور وہ جب چاہتا لوگوں کے کھیتوں میں چرانے کے لیے بھیج دیتا۔ اور لوگ ان سے تنگ تھے مگر لوگ کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ بے بس تھے جو شخص چوری کرتا وہ بابا مانک کے ڈیرے پر چلا جاتا تھا کیونکہ وہاں کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی تھی۔وہاں مانک بوسال اس ان آدمیوں کو اسلحہ دے دیتا اور اپنے نوکروں میں شامل کر لیتا تھا۔یہی وجہ تھی پولیس وہاں جانے کی جرئت نہ کرتی تھی اگر جاتی بھی تھی تووہ مانک بوسال صاحب کے ماتحت ہی ہوتی تھی۔انگریز برطانوی حکومت نے اسی وجہ سے مانک بوسال کو کنگ آف دی بار کا خطاب دیا تھا چونکہ دریائوں کے کناروں کے ساتھ ساتھ مٹی کی تہہ نشینی سے جو علاقہ بنتاہے اسے بار کہتے ہیں اسی وجہ سے اسے کنگ آف دی بار کا خطاب برطانوی حکومت کی طرف سے ملا۔اس کے علاوہ بار کا مطلب علاقہ بھی ہوتا ہے یعنی کہ علاقے کا بادشاہ۔
لہذا جب غلام حیدر گکھڑ کے خاندان نے ڈیرہ بسایا تو اس کے 4 یا 5 دن بعد مانک بوسال اپنے نوکروں کے ساتھ آیا ان کے ڈیرے پر اور سلام کیا جب بھی مانک بوسال کہیں جاتا تھا تو اس کے ساتھ دو گھوڑیاں اور نوکر پیچھے اور دو آگےگھوڑیوں پر ہوتے تھے اور درمیان میں مانک بوسال ایک گھوڑی پر خود ہوتا تھا اس زمانے میں بھی اسکے پاس پستول ہوتا تھا مانک بوسال کی گکھڑ ڈیرے پر آنے کی وجہ یہ تھ کہ اس کے ایک نوکر نے آکر بتایا کہ فلاں فلاں ایک گھر نیا آباد ہوا ہے اور وہ اپنا مال مویشی باہر ہی کھلا باندھتا ہے انکو آپ (مانک بوسال) سے ڈر نہیں لگتا کہ اس کے نوکر بندے چراکر لے جائیں گے ۔یہ سن کر مانک بوسال صاحب نے کہا کہ چلو میرے ساتھ ان کے پاس چلتے ہیں اور ان کو دیکھتے ہیں کہ کیا صورت حال ہے۔ جب مانک بوسال صاحب غلام حیدر گکھڑ صاحب کے ڈیرے پر اپنے نوکروں کے ساتھ آئے اور سلام کیا غلام حیدر گکھڑ کے والدصاحب حسن محمد گکھڑ صاحب چارپائی پر بیٹھے ہوئے تھے مانک بوسال بھی جاکر ان کے پاس بیٹھ گیا اور ہمکلام ہوا اور کہنے لگا کہ بزرگو آپ کدھر سے آئے ہو اور کس لئے آئے ہو؟ حسن محمد گکھڑ نے کہا کہ ہم گکھڑ منڈی سے آئے ہیں اور ادھر روزی کمانے کے لئے آئے ہیں ۔مانک بوسال ان سے کہنے لگا کہ آپ کو مانک بوسال سے ڈر نہیں لگتا ۔کہ آپ نے اپنا مال مویشی وغیرہ باہر ہی کھلا باندھا ہے اور واڑے میں نہیں باندھا ؟یہ سوال مانک بوسال نے اس لئیے پوچھا تھا کیونکہ اس نے ابھی اپنا تعارف نہیں کروایا تھا۔ ____جواب میں حسن محمد گکھڑ کہتے ہیں کہ مانک بوسال ہو گا تو اپنے گھر ہی ہوگا وہ بندے تو نہیں کھاتا ایک میں ہوں حسن محمد گکھڑ اور چار میرے بیٹے ہیں جس کسی نے بھی کوئی چیز چرانی ہے پہلے وہ ہم کو مار ے گا تو پھر ہی چرائے گا نہ ۔یہ جواب سن کر مانک بوسال ہکا بکا رہ گیا اور دو منٹ کے لیے پریشان ہو گیا پھر اس کے بعد جب اس نے چاروں گکھڑ سپوت دیکھے چار سپوت جو تھے وہ سب ایک سے بڑھ کر ایک تھے چوتھا سپوت جو تھا اس نے زمین کو پانی لگایا ہو تھا اس کا نام اکبر گکھڑ وہ بھی پھر آگیا اور گھوڑی سے اتر کر ملا چودھری مانک بوسال نے جب سب جوانوں کو دیکھا تو ان کو مان گیا کہ یہ واقعی ہی خاص بندے ہیں ورنہ کسی کی اتنی جرائت نہ تھی یوں مجھ سے ہمکلام ہوتا ۔اور مجھ مانک بوسال کے ڈر سے تو گائوں کے سب لوگ شام ہوتے ہی اپنا سارا مال مویشی اور دیگر سامان حویلیوں وغیرہ میں لے جاتے ہیں تا کہ محفوظ رہے مگر یہاں تو کام ہی سارا الٹ ہے یہ تو بالکل نڈر اور بےخوف اور لڑاکو نوجوان ہیں ۔پھر مانک بوسال نے اپنا تعارف کروادیا۔اسی لیے مانک بوسال جاتے وقت کہنے لگا “””بزرگو اسی تے بندیاں دے بھکھے آں ،جے سانوں کوئی لوڑ پئی تے اسی تہاڈا بندہ لے جاواں دے “””” چونکہ وہ جانگلی بولتا تھا اس لیے اس کا لہجہ تھوڑا مختلف تھا ۔مانک بوسال نے کہا کہ آپ ادھر جو چاہے کرو آپ کو میں کچھ نہیں کہوں گا بلکہ آپ کی طرف رخ بھی نہ کروں گا اس کے بعد سے اس گائوں میں کوئی چوری چکاری نہ ہوئی بلکہ غلام حیدر گکھڑ کے والد صاحب نےخود مانک بوسال کو سختی سے کہا تھا کہ اگر ہمارا کوئی نقصان ہوا تو ہم تمہارے ساتھ بہت بری طرح سے پیش آئیں گے۔چنانچہ لوگوں میں ان
گکھڑوں کے چرچے ہونے لگے کہ انہوں نے مانک بوسال کو بھی اپنا جادو دکھا دیا ہے اور اپنا آپ منوایا ہے ۔اس کے بعد مانک بوسال کا غلام حیدر گکھڑ کے خاندان کے ساتھ بہت اچھا تعلق رہا اور دونوں خاندان ایک دوسرے کے ہاں آتے جاتے رہے بلکہ جب کوئی غلام حیدر گکھڑ سے جھگڑنے کی کوشش کرتا تو مانک بوسال اپنے نوکروں کے ذریعے پیغام بھیجواتا کہ گکھڑوں کے ساتھ مت جھگڑنا بھاری نقصان اٹھاو گے۔اس کے علاوہ مانک بوسال کا ایک بیٹا بھی غلام حیدر گکھڑ صاحب کے بھائی غلام قادر کے ساتھ پڑھتا تھا اور بہت اچھا دوست تھا۔مگر مانک بوسال خود ان پڑھ تھا۔
ایک سکھ خطری کے ذریعے #ہندوستان خط: ________________________________
ایک سکھ خطری جو کہ ہندوستان سے آیا ہو تھا اس کے ذریعے ہندوستان میں غلام حیدر گکھڑ نے خط بھیجا کہ جو یہاں آئے گا اور میرا مقابلہ کرے گا ہم اس کو چار ہزار روپیہ دیں گے ۔مگر خطری کچھ مہینوں کے بعد واپس آیا اور اس نے بتایا کہ کوئی آپ کا مقابل کرنے والہ ہے ہی نہیں مجھے ملا ہی نہیں چھال مارنے میں اور وزن اٹھانے میں اور پتھر پھینکنے میں۔4000 روپیہ چونکہ اس زمانے میں بہت اہمیت کا حامل تھا ۔عام بندے کے پاس اتنی رقم نہ ہوتی تھی۔
وفات:
____
وہ رضائے الہی سے تقریبا سو سال کی عمر میں پیر والے دن 2015 ا اس جہان فانی سے رخصت ہوئے مگر ان کے کارناموں کا تذکرہ آج بھی لوگ کرتے ہیں۔جب ان کا جنازہ لے جایا جا رہا تھا تو ہلکی ہلکی بارش کی بوندیں پڑ رہی تھی اور خوشگوار موسم تھا ۔یہ اللہ کی خاص رحمتیں بھی ایسے لوگوں پر ہوتی ہیں جو نیک وکار ہوں اور اللہ کے خاص بندے ہوں۔
پیدائش مسمی بمقام #گکھڑ منڈی1915
وفات مسمی بمقام #کامونکی تحصیل 2015
وہی جہاں ہے ترے لیے جسکو تو کرے پیدا
یہ سنگ وخشت نہیں جو تری نگاہ میں ہے
تحریر وتحقیق: شعیب اسلم قوم #گکھڑ ساکن پاکستان صوبہ پنجاب
شعیب اسلم قوم گکھڑ
حال مقیم گوجرانوالہ
03034557532 واٹسپ
(حیدر شمہاری کا پوتا)