Skip to content Skip to left sidebar Skip to footer

Month: May 2016

پنجابی لوگ

پنجابی لوگ

 
 
پنجابی شخصیات
حفیظ جالندھری.jpg
حفیظ جالندھری
Sikh Gurus with Bhai Bala and Bhai Mardana.jpg
گرو نانک
Amrita Pritam (1919 – 2005) , in 1948.jpg
امرتا پریتم
RanjitSinghKing.jpg
مہاراجہ رنجیت سنگھ
BullehShah.jpg
بلھے شاہ
Bhagat Singh 1929 140x190.jpg
بھگت سنگھ
Thumb1.jpg
عبد السلام
Wasim Akram.jpg
وسیم اکرم
Iqbal.jpg
محمد اقبال
Amrita Sher-Gil, painter, (1913-1941).jpg
امرتا شیر گل
Faizahmadfaiz2.JPG
فیض احمد فیض
Insha.jpg
ابن انشاء
Prime Minister Manmohan Singh in WEF ,2009 (cropped).jpg
منموہن سنگھ
Jagjit Singh (Ghazal Maestro).jpg
جگجیت سنگھ
Zia ul haq.jpg
محمد ضیاء الحق
Iftikhar Muhammad Chaudhry.jpg
افتخار محمد چوہدری
Kalpana Chawla, NASA photo portrait in orange suit.jpg
کلپنا چاولہ
Amir Khan.jpg
عامر خان
Liaquat Ali Khan.jpg
لیاقت علی خان
Pak nusrat150.jpg
نصرت فتح علی خان
کل آبادی
120 ملین (تخمینہ)
خاطر خواہ آبادی والے علاقے
Flag of Pakistan.svg پاکستان 81,379,615[1]
Flag of India.svg بھارت 33,102,477[2]
Flag of the United Kingdom.svg مملکت متحدہ 2,300,000[3]
Flag of Canada.svg کینیڈا 800,000[4]
Flag of the United Arab Emirates.svg متحدہ عرب امارات 720,000
Flag of the United States.svg ریاستہائے متحدہ امریکا 640,000
Flag of Australia.svg آسٹریلیا 620,000
Flag of Saudi Arabia.svg سعودی عرب 560,000
زبانیں
• پنجابی •
مذہب
Allah-green.svg اسلام
Om.svg ہندومت
Khanda.svg سکھمت
Christian cross.svg عیسائی[5]
دیگر
متعلقہ نسلی گروہ
سرائیکی • کشمیری • ہندکو • گجراتی • راجستھانی

پنجابی لوگ (پنجابی:پنجابی لوک) خطۂ پنجاب جو کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود ہے، سے ایک نسلی گروہ ہے۔ پاکستان میں صوبہ پنجاب میں آباد ہیں جبکہ بھارت میں بھی بھارتی ریاست پنجاب میں آباد ہیں۔ ان کی مادری زبان پنجابی ہے جبکہ اس کے علاوہ انگریزی،اردو،سرائیکی،پشتو اور پوٹھوہاری وغیرہ کو بطور دوسری زبان استعمال کرتے ہیں۔اب اور بھی گروہ بن گئے ہیں (جیسے سرائیکی،وغیرہ) وہ بھی پنجابی نسلی گروہ کی ہی ایک قسم ہے جن کا زمین فاصلے کے ساتھ ساتھ لہجہ بدل گیا ہے۔

محل وقوع


پنجابی لوگ اصل میں خطہ پنجاب میں آباد ہیں۔ پنجاب کا مطلب پانچ دریاؤں کا خطہ۔ مقامی پنجابی آبادی اس وقت بطور مقدر ابھری جب اٹھارویں صدی میں رنجیت سنگھ نے پہلی مرتبہ پنجاب اعظم کا بنیاد رکھا جس میں موجودہ پاکستانی پنجاب،بھارتی پنجاب،پورا آزاد کشمیر اور موجودہ خیبر پختونخوا شامل ہیں یہ سارے علاقے پنجاب میں شمار ہوتے تھے۔

پنجابی لوگ مشرق میں میں بھارتی ریاست ہماچل پردیش،ہریانہ اور راجستھان سے لے کر مغرب میں پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا تک جبکہ شمال میں جموں و کشمیر سے لے کر جنوب میں سندھ تک آباد ہیں۔

پاکستانی پنجابی]

پاکستان میں تقریبا 40 سے 45 فیصد لوگ ہیں جو پنجابی زبان بولتے ہیں۔پاکستان میں پنجابی آبادی دو اہم گروہ میں منقسم سمجھی جاتی ہے ، زمیندار اور قوم۔ زمیندار اصل میں ان پنجابیوں کو کہا جاتا ہے جو زراعت اور کاشتکاری سے منسلک ہوتے ہیں۔زمیندار گروہ مزید راجپوت، جٹ،شیخ،گوجر،گاکخر،ڈوگر اور رحمانی میں منقسم کیا گیا ہے۔پاکستان میں پنجابی اکثریتی آبادی مسلمان ہیں۔

درجہ صوبہ پنجابی متکلمین فیصد
پاکستان 76,335,300 44.15
1 پنجاب 70,671,704 75.23
2 سندھ 3,592,261 6.99
3 وفاقی دارالحکومت،اسلام آباد 1,343,625 71.62
5 بلوچستان 318,745 2.52

بھارتی پنجابی

 

ایک بھارتی پنجابی کاشتکار

بھارت میں پنجابی مذہبی اعتبار سے دو اہم گروہوں میں تقسیم ہیں، ایک سکھآبادی اور دوسری ہندو آبادی۔ بھارت میں پنجابی آبادی تقریبا 4 فیصد ہے جو تقریبا 3 کروڑ سے زیادہ افراد بنتے ہیں۔

مذہب

پنجابی لوگوں میں سب سے زیادہ دو مذاہب ہیں ،پاکستان میں مقیم پنجابی اکثریتی طور پر مسلمان جبکہ بھارت میں مقیم پنجابی سکھ مذہب کے پیروکار ہیں۔ پنجابی اکثر مسلمان ہیں جو سنی اسلام کے فقہ حنفی پیروکار ہیں

ثقافت

زبان


پنجابی لوگوں کی مادری زبان پنجابی ہے جو ایک ہند یورپی زبان ہے جو کہ باشندگان پنجاب میں مروج ہے۔ پنجابی بولنے والوں میں ہندومت، سکھ مت، اسلام، اور مسیحیت کے پیروکار شامل ہیں۔ اول الذکر مذہب کے علاوہ باقی تینوں مذاہب میں اس زبان کو خاص حیثیت حاصل رہی ہے۔ پاکستان اور بھارت میں کیے گیے مردم شماریوں کے مطابق دنیا میں پنجابی بولنے والوں کی تعدا 14-15کروڑ سے زائد ہے ۔اس کے علاوہ اردو،ہندی اور انگریزی بطور دوسری زبان استعمال کرتے ہیں۔

پنجابی ثقافتی کھانا

 

 

گاجر کا حلوہ

پنجاب میں تندوری کھانے زیادہ عام ہیں۔ پنجابی ثقافتی کھانوں میں مرغ تکہ،آلو گوبی،پراٹھا،دیسی لسی ، تندوری چکن،زیرہ چاول،پنجیری، تڑکہ دال،سیویاں،گاجر حلوہ ،اچار گوشت اور پنیر شامل ہیں

رقص

پنجاب میں بہت سے ثقافتی رقص معموم ہیں جن میں سب سے معروف رقص بھنگڑا ہے جو مختلف تقریبات اور تہوار میں کیا جاتا ہے۔ دیگر درج ذیل ہیں:

  • بھنگڑا
  • سمی
  • گِددھا
  • ککلی
  • جھومر
  • ڈنڈاس
  • جگنی

 

پنجابی بلحاظ ملک

درجہ ملک آبادی
1 Flag of Pakistan.svg پاکستان 81,379,615
2 Flag of India.svg بھارت 33,109,672
3 Flag of the United Kingdom.svg مملکت متحدہ 2,300,000
4 Flag of Canada.svg کینیڈا 800,000
5 Flag of the United Arab Emirates.svg متحدہ عرب امارات 720,000
6 Flag of the United States.svg ریاستہائے متحدہ امریکا 640,000
7 Flag of Saudi Arabia.svg سعودی عرب 620,000
8 Flag of Australia.svg آسٹریلیا 620,000
9 Flag of Hong Kong.svg ہانگ کانگ 260,000
10 Flag of Malaysia.svg ملائیشیا 185,000
11 Flag of South Africa.svg جنوبی افریقہ 140,000
12 Flag of Myanmar.svg برما 120,000
13 Flag of France.svg فرانس 90,000
14 Flag of Italy.svg اطالیہ 80,000
15 Flag of Thailand.svg تھائی لینڈ 75,000
16 Flag of Japan.svg جاپان 75,000
17 Flag of Mauritius.svg موریشس 70,000
18 Flag of Singapore.svg سنگاپور 70,000
19 Flag of Oman.svg سلطنت عمان 68,000
20 Flag of Libya.svg لیبیا 65,000
21 Flag of Bahrain.svg بحرین 60,000
22 Flag of Kenya.svg کینیا 55,000
23 Flag of Tanzania.svg تنزانیہ 45,000
24 Flag of Kuwait.svg کویت 40,000
25 Flag of Norway.svg ناروے 25,000
26 Flag of Denmark.svg ڈنمارک 15,000

اعوان برادری کے بارے میں تفصیل جانیں

اعوان اکثر انصار کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ اعوان ایک قوم کا نام جو جنوبی ایشیا میں، پاکستان کے پنجاب کے مغربی حصوں میں ایک قبیلہ ہے. اعوان قوم عربی النسل ہونے کا دعویٰ کرتی ہے کہ وہ چوتھے خلیفہ علی کرم اللہ کی اولاد ہیں. اعوان قوم کا سلسلہ نسب علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے. اعوان قوم کوہ نمک کے علاقے وادی سون سکیسر وغیرہ میں ساتویں صدی عیسوی میں عرب حملہ آوروں کے دور میں یہاں آ ئی تھی. اعوانوں کو کم از کم پاکستان میں سب سے بڑا قبیلہ مانا جاتا ہے جو خیبر سے کراچی و بلوچستان و پنجاب تک میں آباد ہے۔ سندھی‘ بلوچی‘ ہندکو اور پشتو بولنے والے اعوان بھی جگہ جگہ مل جاتے ہیں۔

 

عون قطب شاہ

اعوان قوم کے جد امجد عون قطب شاہ ایک نہایت درویش، صوفی، دلیر مجاہد انسان تھے۔ آپ کی تاریخ پیدائش کے متعلق وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے، البتہ آپ 525ھ میں تبلیغ اسلام بسلسلہ قادریہ کے لئے بحکم جناب شیخ عبدالقادر جیلانی ہندوستان وارد ہوئے۔
عون قطب شاہ کی ہندوستان آمد کے ساتھ ہی پہلا معرکہ دھن کوٹ کمیلا بھنگ خیل نزد کالا باغ سے ہوا۔ عون قطب شاہ کامیاب ہوئے مخالف نے اسلام قبول کیا بعد میں سکیسر راجگان کو زیر کیا اور گجرات تک چلے گئے۔ واپسی پر تلہ گنگ کے مقام پراعوان محل تیار کیا اس کا تذکرہ آئینہ اکبری میں موجود ہے۔ علاقہ پکھڑ دھن پنڈی وغیرہ سے کافی راجگان بھگوڑے ہو کر سکیسر آئے عون قطب شاہ ان کی سر کوبی کے لئے وارد ہوئے علاقہ کو مطیع کیا جنوب میں خانقاہ ڈوگراں تک چلے گئے، اس کے بعد خاندان کے ہمراہ بغداد عازم سفر ہوئے ۔عون قطب شاہ نے 556ھ میں وفات پائی آپ کا مزار کاظمین شریف کے قبرستان میں غوث پاک کے پاؤں کی جانب ہے۔

گوہر شاہ عرف گورڑا

قطب شاہ جو سلطان محمود غزنوی کے ہمراہ جہاد پر تھے۔ جب سلطان نے واپسی اختیار کی تو سلطان سے اجازت لے کر کفرستان ہند میں تبلیغ اسلام کے ارادے سے کالا باغ میں مقیم ہو گئے۔ مگر گرد و نواح کے راجاؤں نے ان پر حملہ کر دیا۔ مگر فتح قطب شاہ کو ہوئی اور اسلام نے پھیلنا شروع کر دیا۔ کالا باغ میں جو اعوان فیملی ہے اور جس کے مشہور و معروف ممبر ملک امیر محمد خان نواب کالا باغ تھے۔
اعوان خاندان کے پہلے بزرگ وادی سون سکیسر میں داخل ہوئے۔ ان کا نام گرامی گوہر شاہ عرف گورڑا تھا‘ خوشاب سے آنے والی سڑک جب نورے والے کے مقام سے سون کے پہاڑ پر تین میل اوپر چڑھتی ہوئی پہاڑ کے اوپر وادی سون سکیسر کے منہ پر پہنچتی ہے وہاں ایک مقام ہے جسے دادا گورڑا کہتے ہیں کیونکہ وہاں پر دادا گورڑا (گوہر شاہ) نے قیام کیا تھا۔ اور جو بھی شخص اس راستے وادی سے تھل کے علاقے میں اترتا ۔ یا تھل سے اوپر وادی میں داخل ہوتا تھا رسماََ ایک پتھر وہاں پر پھینک دیتا تھا حتی کہ وہاں پتھروں کا ایک ٹیلہ بن گیا تھا۔ بالآخر جب وہاں بسوں کے لئے سڑک کی تعمیر ہوئی تو سڑک بنانے والوں نے اس ٹیلے کا ایک بڑا حصہ ہٹا دیا۔ رفتہ رفتہ اعوان ساری وادی پر قابض ہو گئے اور آج تک وادی سون سکیسر کو اعوانوں کے گڑھ کی حیثیت حاصل ہے
ضلع چکوال میں زیاده اعوان رہتے ہیں ان کا ایک اہم قبیله چکوال کے گاوں کرولی میں رہتا ہے ملک گلزار اعوان اسی گاوں کے قبیلے کے سردار ہیں۔
اعوان پابندیٔ شریعت اور حفظ قرآن حکیم کے لئے مشہور رہے ہیں‘ اعوان قبیلہ نے بے شمار اور بہترین حافظ قرآن پیدا کئے‘ بعض لوگ تصور کرتے ہیں کہ اعوانوں کے علاقہ کو اعوان کاری اسی لئے کہتے ہیں کہ وہاں کے قاری اچھے ہیں. ٹھیک ہے اعوان کاری کے قاری اچھے ہیں لیکن اعوان کاری کے معنی ہیں اعوانوں کی آبادی کا علاقہ۔ (کاری کے معنی بھرپور اور گہرائی کے ہیں جبکہ قاری کے معنی پڑھنے والا ہوتا ہے) بعینہ اسی طرح جس طرح کہ پٹھانوں کے علاقے کو پٹھان ولی کہتے ہیں اور اگرچہ پٹھانوں میں ولی بہت ہوتے ہیں اور بڑے مرتبہ کے ولی ہوتے ہیں لیکن پٹھانوں کے علاقے کو پٹھان ولی کہنے کا مطلب ہے کہ پٹھانوں کی آبادی کا علاقہ ہے ولی اعوانوں میں بھی بے شمار ہوئے ہیں۔ صرف وادی سون سکیسر کے چھوٹے سے علاقے میں چار سلطان العارفین کے مزارات ہیں۔
سلطان انب شریف،
سلطان سخی محمد خوشحال،
سلطان حاجی احمد اوچھالہ اور
سلطان مہدی بھانکہ گاؤں میں،
ان کے علاوہ سلطان العارفین سلطان باہو بھی اعوان قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں ان کے والد ماجد بازید شاہجہان کے زمانے میں موضع انگہ وادی سون سکیسر سے ہجرت کر گئے۔ انگہ مولانا غلام مرشد صاحب اور جناب احمد ندیم قاسمی کا گاؤں ہے۔ اور جہاں پر پیر مہر علی شاہ گولڑوی نے قرآن حکیم کی تعلیم حاصل کی تھی۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اعوان قبیلہ کے لوگ علاقہ سون سکیسر سے ہر طرف پھیل گئے اور وہاں تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دیا حتی کہ خطہ کشمیر بھی اس سعادت سے محروم نہیں ہے۔
بابا گوہر علی شاہ کی اولاد میں بہت ولی اللہ پیدا ہوئے ہیں۔ ان میں بابا جھام آج سے بہت پہلے ایک اعوان گھرانہ موضع کھبیکی علاقہ سون سکیسر میں پیدا ہوئے ۔ آپ ابھی چند مہینوں کے تھے کہ ایک دن آپ کی والدہ ماجدہ کہیں باہر جاتے ہوئے اپنی دو کم سن بیٹیوں کو کہہ گئی کہ گائے کے لئے باجرے کی دو پوری پڑوپیاں اور ایک منی پڑوپی ہنڈیا پر ڈال کر چولہے پر چڑھا دینا۔ بچیاں کھیل میں لگ گئیں اور انہیں یاد نہ رہا کہ والدہ نے کتنے دانے چولھے پر چڑھانے کے لئے کہے تھے ۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کو پوچھنے لگیں ۔ ننھا جھام جو پنگھوڑے میں پڑا تھا کہہ اٹھا دو بھریاں ایک منیڑری، یعنی دو پوری پڑوپیاں ایک منی پڑوپی دانے ناپنے کا ایک پیمانہ ہے جو پہلے لکڑی سے بنتا تھا پھر لوہے کا بننے لگا اور دانے ناپنے کے لئے وادی سون سکیسر میں استعمال ہوتا ہے۔ والدہ جب واپس لوٹی تو بچیوں نے کہا اماں یہ ہمارا بھائی تو کوئی بلا ہے اور ماں کو تمام تفصیل سے آگاہ کر دیا ۔ بچے کو کپڑوں میں لپیٹ کر جنگل میں ایک اونچے ٹیلے کے دامن میں ڈال دیا گیا۔ چند روز میں جب اس بات کا چرچا ہوا گاؤں میں عام ہوا تو لوگ بچے کی تلاش میں نکلے دیکھا تو بچہ صحیح سالم پڑا اپنا انگوٹھا منہ میں ڈالے چوس رہا ہے اور انگوٹھے سے دودھ آ رہا ہے اتنے دنوں نہ تو اسے کسی جنگلی جانور نے جو ان دنوں بے شمار پھرتے تھے کچھ کہا نہ اسے بھوک کی کچھ تکلیف ہوئی۔ لوگوں نے جب بچے کو اٹھایا تو بچے نے برجستہ کہا۔ اپنیاں کڑمتیں جھام ڈھبے اتے سٹیں۔ یعنی اپنی کرامات نے جھام کو ٹیلے پر پھینکوایا۔ یہ ٹیلہ اب بھی موضع کھبکی کے شمال میں کھڑا ہے اور اب بھی اس کو جھامے والا ڈھبہ کہتے ہیں۔ بابا جھام کی قبر بھی اسی ٹیلے پر واقع ہے۔[4]
بابا نڈھا بابا جھام کے والد محترم تھے۔ ان کی ایک بیٹی کالا باغی اعوانوں کے خاندان میں بیاہی ہوئی تھی۔ جھیل کھبکی بابا نڈھا کی ملکیت تھی۔ اس جھیل میں اس وقت پانی نہ تھا۔ اور اس رقبے میں کاشت کاری ہوتی تھی۔ ایسی قابل کاشت زمین پاکستان بھر میں نہیں اور اس کو کہار کہا جاتا ہے۔ اور اس کی مکئی کا ہر طرف چرچا تھا۔ بابا نڈھا کی مذکورہ بیٹی نے چاہا کہ بابا نڈھا کچھ زمین اس کہار میں سے اس کے نام کردیں تاکہ اس میں مکئی کی فصل اگائی جا سکے۔ بابا نڈھا کا جواب تھا بیٹی مکئی کی ہر فصل پر میں یہاں سے مکئی سے لدا ہوا جانوروں کا قافلہ کالا باغ تک چلاؤں گا مگر کہار کی زمین دینے سے معذور ہوں ۔ میراثی نے جو جس (شعر) بابا نڈھا کی شان میں پڑھا تھا اسکا ایک بند تاریخ میں اؔ گیا ہے۔ اور وہ یوں ہے :۔
نڈھے مونہیاں ماریاں کھڑڈنڈے اٹی
سیر نہ دیندا مانگویں کہاروں مٹی
یعنی نڈھے نے شمشیر زنی کے بڑے بڑے معرکے مارے لیکن کہار کی زمین سے مانگنے والے کو ایک سیر مٹی بھی نہیں دیتا۔
بابا گوہر علی شاہ کی اولاد سے موضع کھبکی میں ایک سردار خان بلاقی اعوان تھا۔ خان بلاقی کا ایک بھائی دریا خان تھا۔ ایک روز خان بلاقی کو کوئی ضروری کام کٹھہ گاؤں میں پڑ گیا۔ اوروہ گھوڑے پرسوار ہو کر چل پڑا اور اپنے بھائی دریا خان کو ساتھ لے لیا۔ کھبکی سے کٹھہ کا سفر پندرہ میل نہایت ہی دشوار گذار اور نوکیلے پتھروں والا ہے ملک دریاخان گھوڑے کے آگے آگے چل رہا تھا اور ملک دریا خان کے پاؤں میں جوتے نہ تھے وہ نوکیلے پتھروں میں ننگے پاؤں گھوڑے کے آگے آگے بھاگ رہاتھا۔ کٹھہ گاؤں پہنچ کر خان بلاقی نے وہاں کے سردار سے جو کچھ کہنا سننا تھا وہ کہاسنااور فوری واپسی اختیار کر لی۔ ملک دریا خان حسب معمول گھوڑے کے آگے اّگے بھاگتا رہا گھر پہنچ کر تھکے ماندے خان بلاقی نے کچھ دیر کے لئے اّۤنکھ موند لی اور یوں سستا کراٹھااور مسجد میں پہنچا ۔اس کامعمول تھا کہ رات کے پچھلے پہر مسجد کے گوشے میں بیٹھ کر یاد الہی کرتا تھا۔ اس رات جب وہ مسجد کے اندر داخل ہوا تو وہ کسی ذی روح کی سانس کی آواز سن کر ٹھٹھکا سانس کی آواز مسجد کے اسی گوشے سے اّرہی تھی جس میں وہ بیٹھ کر یاد الہی کرتا تھا۔ کچھ دیر کے لئے وہ خاموش کھڑا رہا ۔ پھر پوچھا کون ہے؟ جواب میں ایک مضحمل سی اّۤواز اۤئی ۔ جی میں دریا ہوں۔ خان بلاقی نے یہ سن کر کہاکہ اۤپ نے سرداری لے لی ہے مگر پانے زور سے۔ اور پھر واپس مڑا اور چلا گیا۔ بات دراصل یہ تھی کہ ملک دریا خان کے پاؤں لہو لہان ہو گئے تھے وہ تھکاوٹ سے چور چور ہوچکا تھا۔ اور اس سے بھی بڑھ کر اس کو یہ صدمہ تھا کہ راستہ بھر تک خان بلاقی نے یہ نہ کہاکہ اب میں کچھ دور تک پیدل چلوں گا اور تم گھوڑے پر سوار کر لوں ۔ اس بات کا صدمہ اسے اتنا شدید ہوا کہ تھکن کے باوجود گھر نہیں گیا بلکہ سیدھا مسجد میں گیا اور اسی کونے میں بیٹھ گیا جس میں خان بلاقی بیٹھا کرتا تھا۔ خان بلاقی فوراً بات کی تہہ تک پہنچ گیا۔ اور اپنی لاپرواہی کے پیش نظر اس کے ضمیر نے اس کو جھنجھوڑ ڈالا اور وہ اپنی لغزش کو دیکھ کر کانپ گیا اور اس نے سمجھ لیا کہ سرداری اب اس سے چھن جائے گی۔ اور ملک دریا خان کی نسل میں منتقل ہو جائے گی۔ اس کی یہ فراست حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی۔ جب بھی وہ صبح کی نماز کے بعد مسجد سے گھر آتا اور دیکھتا کہ اس کے بیٹے سو رہے ہیں اور نوکر ان کو دھوپ سے بچانے کے لئے چادریں تان رہے ہیں تووہ کہتا ۔ بیٹو سو لو۔ بس تمہارے تھوڑے دن باقی ہیں یعنی سرداری کی عزت تم سے جلدی چھن جائے گی اور پھر ایسا ہی ہوا۔

 

ihsan ullah chak alam

Chak Alam چک عالم

Chak Alam چک عالم

عظمت الله گوندل، احسان اللہ گوندل

Azmatullahaji@gmail.com ، ihsangondal4@gmail.com

00923441118090 , 03447546900

Introduction:

Chak Alam چک عالم is a small village in tehsil Phalia, district Mandi Bahauddin Mandi Bahauddin. Chak Alam has about 1,000 registered votes. In 2016, its total population was 1,400. The main occupation of the people is agriculture.

Main casts: اہم ذاتیں

The village of Chak Alam has only gondals.

Crops of village: گائوں کی اہم فصلیں

By the way, there are many crops in the village but

  • Wheat
  • Paddy
  • Sugarcane
  • Sesame
  • Cotton

are widely cultivated here.

Nearby villages: گائوں کے قریبی دیہات

  1. Jund Bosal
  2. Rerka Bala

 چک عالم اک چهوٹا سا گاؤں هے۔ چک عالم کے تیقریبا 1000 رجسٹر ووٹ ہیں۔ سال 2016 میں اس کی کل ابادی 1400 هے۔ لوگوں کا اہم پیشہ زراعت ہے۔

گاؤں کی مشہور اور تعليم يافتہ شخصيات

حاجی باطی خاں گوندل

حاجی عارف مشتاق گوندل

اکبر نزیر گوندل

ڈاکٹر سعی محمد گوندل

چوہدری عمر حیات نمبردار

چوہدری محمد انار گوندل

ڈاکر سعی محمد گوندل

فتح محمد گوندل کرمانہ

عارف مشتاق گوندل

حاجی باطی خاں

محمد اکبر گوندل

محمد زبیر ہرل

محمد اصغر بخت کا

محمد اشرف سماہل کا

فیض گوندل غلام کا

دوست محمد نریانہ

حاجی اصغر علی گوندل کرمانہ

حافظ محمد رفیق صاحب ہرل

احسان اللہ گوندل (ایم اے بی ایڈ)

جنید حسن گوندل

محمد عباس گوندل کرمانہ

سلیم اختر گوندل

حافظ عون علی گوندل

ظفر اقبال قادری صاحب

امان اللہ گوندل

عظمت اللہ گوندل

محمد نواز گوندل (بخت کا)

محمد اعجاز گوندل (بخت کا)

محمد اکرام گوندل (بخت کا)

حاجی باطی گوندل ( دائم کا)

حاجی منشاء گوندل

خرم شہزاد گوندل کرمانہ

محمد اعجاز گوندل کرمانہ

حسن عباس گوندل نریانہ

محمد نصر اقبال گوندل کرمانہ

گاوں کی اہم ذاتیں،گاوں کی اہم فصلیں یا کوئی اور اہم چیز

گاؤں چک عالم میں صرف گوندل ﺫات هے.

ویسے تو گاؤں میں بهت ساری فصلیں هیں لیکن یہاں گندم,دھان,کماد,تل,کپاس,وسیع پیمانے پر کاشت کی جاتی ہے۔

گاؤں کے قريبی ديھات

جنڈ بوسال

حصوآنه

ریڑکا بالا

 May Allah Bless This Village (AAMEEN)


ihsan ullah chak alam

عظمت الله گوندل، احسان اللہ گوندل

Azmatullahaji@gmail.com ، ihsangondal4@gmail.com

00923441118090 , 03447546900

village Malihan mandi bahauddi

Jatt Cast جٹ برادری

 

گنگا جمنا کے دوآبے اور راجپوتانے میں یہ جاٹ کہلاتے ہیں اور پنجاب میں یہ جٹ مشہور ہیں۔ اس طرح یہ جیٹ، جٹ، زت کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ پنجاب سے لے کر مکران کے ساحل تک گنگاکے کنارے تک جاٹ کثیر تعداد میں اور پنجاب میں ان کی اکثریت ہے۔ گو اب یہ مسلمان ہیں اور شمالی ہند میں یہ دوسری اقوام سے اور رجپوتانہ میں نصف کسان جاٹ ہوں گے۔ دریائے سندھ کے کنارے ان کی بہت سی قومیں مسلمان ہوچکی ہیں۔ غیر مستقیم پنجاب میں راوی کے مغربی اضلاع میں بیشتر جاٹ مسلمان تھے۔ لیکن وسطی پنجاب میں وہ اکثر سکھ اور جنوبی پنجاب میں وہ اکثر ہندو ہیں۔ جیمز ٹاڈ کا کہنا ہے کہ بلوچ بھی جاٹ نسل ہیں۔ بلوچ اور ان کا ایک بڑا قبیلہ جتوئی کی اصل جاٹ ہے۔ کیوں کہ بلوچ روایات کے مطابق میر جلال خان کی لڑکی جاتن سے منسوب ہے۔ جاتن جات کا معرب ہے۔ اس طرح جٹ اور جاٹ کے علاوہ جتک، جدگال اور دوسرے قبائل کی اصیلت جاٹ النسل ہے۔ یہ اگرچہ خود کو جاٹ نہیں مانتے ہیں اور بلوچ کہتے ہیں۔ سندھ کے سماٹ قبائل کی اکثریت جاٹ النسل ہے۔جٹوں کا پھیلاؤ

جاٹ نسل

 

ایک مسلم جاٹ شتربان

جیمز ٹاڈ کا کہنا ہے ان کی اصل یوٹی یا جوٹی ہے اور ان کا اصل وطندریائے جیحوں اور دریائے سیحوں کے درمیان تھا، جہاں سے یہ نکل کر برصغیر تک پھیل گئے۔ وسطی ایشیا کے رہنے والے جاٹ اب مسلمان ہیں۔تیمور لنگ نے ان کے بڑے خان کوکل تاش تیمور کی اطاعت قبول کرلی تھی۔ یہ اس وقت بت پرست تھے اور بعد میں تیمور خود ان کا بڑا خان منتخب ہوگیا۔ مزید براں وہ کہتا ہے کہ جاٹ، تکشک یعنی ناگ بنسی اور چندر بنسی کے ہم نسل ہیں۔

لی بان کا کہنا ہے کہ یہ پنجاب و سندھ میں سب سے باوقت قوم ہے۔ ان میں شاز و نادر خارجی میل سے ٹھوڑا بہت تغیر پیدا ہوا ہے۔ تاہم ان کا عام ڈھانچہ حسب ذیل ہے۔ قد لمبا کاٹھی مظبوط چہرے سے ذہانت نمودار، جلد کس قدر سیاہ، ناک بڑی اور اونچی اور بعض اوقات خم دار اور ان کی آنکھیں چھوٹی اور سیدھی، گال کی ہڈیاں کم ابھری ہوئیں ہیں، بال سیاہ اور کثرت سے ڈاھاڑیاں چگی اور کم بالوں کی، بلند قامت خوش نظر، ان کی چال سیدھی اور شاندار۔ جٹ دراز قد ہوتے ہیں ان کا جسم گھٹا ہوا اور مظبوط ہوتا ہے اور رنگ سانولہ ہوتا ہے۔ یہ مانا جاسکتا ہے کہ جاٹ نسل کے لحاظ سے وہ آریا ہیں۔ اگرچہ بعض مصنفین نے انہیں اصل کے اعتبار کے لحاظ سے سیتھائی آریائی قرار دیا ہے۔ جس کی بڑی شاخ میں آگے چل کر مختلف قبائل کی آمزش ہوگئی ہے۔

اگرچہ جنرل کنگم کا کہنا ہے کہ جاٹ اندوسیتھک ہیں اور سکندر کے بعد آئے ہیں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تورانی یا اندوسیتھک نہ ڈراویڈوں سے زیادہ ملی نہ آریوں سے۔ تاہم اس میل کا اثر جو وقوع میں آیا ہے، وہ جاٹوں میں موجود ہے۔ مثلاً بعض ان میں سیاہ فام ہیں اور بعض کا رنگ قدر صاف ہے، جیسا کہ راجپوتوں کا۔ کورو کی ایک شاخ جارٹیکا کے نام سے مشہور تھی اور پنجاب میں آباد تھی۔ یہ غالباً جٹوں کے اسلاف تھے۔ جیمز ٹاڈ کا کہنا ہے کہ جاٹوں کی روایات کے مطابق وہ پانچویں صدی عیسویکے مابین دریائے سندھ کے مغرب سے آکر پنجاب میں آباد ہوئے تھے۔ جاٹ اگرچہ راجپوتوں کی چھتیس راج کلی میں شامل ہیں، لیکن راجپوت نہیں کہلاتے ہیں اور نہ ہی راجپوت جاٹوں سے شادی بیاہ کرتے ہیں۔ ان کا شمار نچلی اقوام میں ہوتا ہے۔ ان سے لڑکی لے لی جاتی ہے لیکن لڑکی نہیں دی جاتی ہے۔

جٹوں کے متعلق نظریات

 

ایک سکھ جاٹ

لی بان کا کہنا ہے کہ خطۂ پنجاب کے اصل باشندے تورانی الاصل ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ تورانی جات آریوں کی چڑھائی کے وقت سارے ملک کے مالک تھے اور باآسانی یہ ان کے محکوم ہوگئے۔ آریا فاتحین نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور ان کو درمیانی ذات ویش یا تجارت پیشہ ذات میں ان کو شامل کردیا۔ برخلاف اس ملک کے اصل باشندوں کو شودر بنا دیا۔ گویا جاٹوں کی رضامندی سے آریا اس ملک کے حاکم بن گئے۔ اس باہمی رضامندی کا پتہ تخت نشینی کی رسم میں ملتا ہے۔ کیوں کہ بادشاہ تاج جاٹوں کے ہاتھوں سے لیتا تھا۔

ویمرے کا کہنا ہے کہ جیتی نام ان منگولوں کا تھا، جو منگولیا کی سرحد پر رہتے تھے۔ ان کی نسل کے جو لوگ ہیں وہ بروتی ہیں۔ وسط ایشیا میں اب ان منگولوں کو چیتے مغل (سرحدی مغل) کہتے ہیں۔ ترکی میں جیت سرحد کو اور منگول کو مغل کہتے ہیں۔

بی ایس ڈاہیا کہا کہنا ہے کہ جٹ یہ لفظ بدزات خود بہادری عمل اور پیش قدمی کی علامت ہے شمشیر زنی اور ہل لانے کے ماہر جاٹوں نے مشرق میں منگولیا سے چین سے لے کر مغرب میں اسپین اور انگلستان تک شمال میں سکنڈے نیوبا اور نوڈ گروڈ سے لے کر جنوب میں پاک و ہند ایران اور مصر تک ایشیا اور یورپ کی سرزمین پر تیر و تبر سے اپنا نام رقم کیا۔ برصغیر ایران روس اور جٹ یا جاٹ اور ترکی و مصر میں جاٹ عرب ممالک میں زظ یا جظ، منگولوں کی زبان میں جٹیہ سویڈن اور ڈنمارکمیں گوٹ اور جرمنی اور دیگر زبانوں میں گوٹھ یا گوٹ، ینی میں یوچی (جس کا تلفظ گٹی ہے) کہلاتے ہیں۔ جینی مصنف وردھمان شاکا اور جرٹ قبائل کا ذکر کرتا ہے چندر گومن نے لکھا ہے کہ جاٹوں نے ہن قبائل کو شکست دی یشودھرمن اور گپت فرمانروا جاٹ تھے اور یہی لوگ تھے جنہوں نے ہنوں کو شکست سے دوچار کیا۔ اگرچہ ہن خود بھی جاٹ تھے۔

شاکا، کشان، ہن، کیداری، خیونی (چیونی) اور تکھر (تخار) جنیں الگ الگ نسل شمار کیا جاتا ہے، گو وسطی ایشائی میدانوں میں انہیں بعض اوقات ایک دوسرے کا پڑوسی ظاہر کیا جاتا ہے۔ اگرچہ ان کی نسل تھی جاٹ، مگر ان کے حکمران خاندانوں نے اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد اپنا قبائلی نام اختیار کیا۔ وسط ایشیا کا علاقہ آریائی اقوام کا اصل وطن ہے۔ یہی وجہ کہ برصغیر کی تمام روایات میں اس کے ساتھ تقدس وابستہ ہے۔ ویدی ادب سے لے کر تمام تحریروں میں شمال میں دیوتاؤں کی سرزمین ہے۔ مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ انڈو ایرانی، ساکا اور یورپی سیھتی ایک ہی تھے۔ ہسٹری آف ورلڈ کے مطابق سیتھی وسط ایشا اور شمالی یورپ کے ان قبائل کا نام ہے جو ہمیشہ اپنے پڑوسی نسلوں سے سرپیکار رہتے تھے۔ سیتھہ ایک قدیم علاقہ کا نام ہے جو جو بحیرہ اسود کے مشرق اوردریائے جیحوں و سیحون (دریائے آمو و سیر) کی وادی سے لے کر دریائے ڈینیوب اور دریائے ڈان تک پھیلا ہوا تھا۔ ہیروڈوٹس کہتا ہے کہ مساگیٹے سیتھی قوم کی اولاد ہیں۔

پی سائیکس گتی کہلانے والوں کا ذکر کرتا ہے۔ جنہوں نے 2600 م ق میں سمیر اور اسیریا وغیرہ پر قبضہ جما لیا تھا۔ چینی ماخذ میں بیان کیا گیا ہے کہ وی قبائل کی تاریخ 2600 ق م تک پیچھے جاتی ہے۔ چین کے وی، ایران کے داہی، یونان کے دائے اور موجودہ دور کے داہیا جاٹ ایک ہی ہیں جنوبی ایشیا کے کے جاٹ وہی لوگ ہیں جو ایران کی تاریخ میں گتی اور چینیوں کے یوچی (جس کا چینی تلفظ گتی ہے) کے طور پر سامنے آتے ہیں ان کا اصل وطن سرحدات چین سے لے کر بحیرہ اسود تک وسط ایشیا ہے۔ ہیروڈوٹس اور دیگر یونانی مورخ انہیں گیتے یا مساگیتے کہتے ہیں۔ موخر الذکر نام انہی قبائل کا بڑا عنصر۔

ولسن کا کہنا ہے کہ راجپوت قبائل، راٹھور، پوار، اور گہلوٹ وغیرہ یہاں پہلے سے آباد تھے۔ یہ چاروں قبائل اصل میں جاٹ ہیں جنہیں بعد میں راجپوت کہا جانے لگا ہے۔ کیوں کے یہ اس وقت حکمران تھے۔ اس بناء پر راجپوت یا راج پتر یعنی راجاؤں کی اولاد کی اصطلاح وجود میں آئی۔ اس کی اصل پہلوی کلمہ وسپوہر (شاہ کا بیٹا) سے ہے۔ ولسن انہیں غیر ملکی تسلیم کرتا ہے۔ کیوں کہ ان لوگوں نے ساکا اور دیگر قبائل کے ساتھ مل کر برصغیر کی تسخیر کی تھی۔

جاٹوں کا کردار

 

ایک جاٹ کسان

جاٹوں نے کبھی برہمنی مذہب کی برتری اور بالادستی قبول نہیں کی اور یہی وجہ ہے انہوں نے رسمی انداز میں باقائدہ ہندومت قبول نہیں کیا۔ یہی پس منظر تھا جس میں برہمنوں نے اور ان کی تقلید میں دوسری ذاتوں نے جاٹوں کو کشتریوں کا نچلا طبقہ بلکہ شودر خیال کرتے ہیں۔ لیکن جاٹوں نے کبھی اس کی پرواہ نہیں کی اور کتاب ہندو قبائل اور ذاتوں میں برصغیرٖٖٖٖٖٖٖٖ کی قدیم چھتیس راج کلی میں جاٹوں کا نام ضرور ملتا ہے لیکن کہیں بھی انہیں راجپوت ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔ اس آخری جملے میں بنیاد یہ ہے کہ راجپوت رسمی طور پرہندو مذہب میں داخل ہونے والے جاٹ اور گوجر ہیں جن لوگوں نے رسمی طور پر متصب برہمنی نظام کی شرائط اور قبول کرنے سے انکار کیا انہیں رسمی طور پر ہندو مذہب میں داخل نہیں کیا گیا اور وہ آج تک وہی جاٹ، گوجر اور آہیر ہیں۔ یہی وجہ ہے جاتوں اور راجپوتوں مشترک قبائلی نام ہیں۔ اس طرح راجپوت برہمنی رنگ میں رنگے جاٹ اور گوجر ہیں۔ یہی وجہ ہے ہم راجپوتوں کے ظہور سے بہت پہلے صرف جاٹوں اور گوجروں کو وسطی برصغیر، راجستان گجرات سندھ میں پاتے ہیں۔ اگر کوئی راجپوت کسی جاٹ عورت سے شادی کرلے وہ جاٹ نہیں بنے گا۔ لیکن اگر وہ یا اس کی اولاد بیواہ کی دوبارہ شادی کا طریقہ اپنالے تو وہ جاٹ بن جائے گا۔ یہ مسلے کا اصل نقطہ ہے ایک راجپوت اور جاٹ میں صرف بیواہ کی دوسری شادی کا ہے۔ بیواہ کی شادی ہر دور میں رہی ہے۔ لیکن راجپوتوں کو براہمنوں کے غلط، غیر اخلاقی اور غیر منصفیانہ نظریات کے تحت اس بارے میں سننا بھی گوارہ نہ تھا۔ بیواہ کی شادی کی وہ اہم ترین نقطہ اختلاف تھا جو کہ کوہ آبو کی قربانی کے موقع پر جاٹوں اور برہمنوں کا اختلاف ہوا۔ جن لوگوں نے برہمنوں کی پیش کردہ شرائط کو تسلیم کیا وہ راجپوت کہلائے۔ اس کے برعکس جنہوں نے بیواہ کی شادی کرنے پر اصرار کیا وہ ہندو مذہب میں داخل ہونے کے وجود جاٹ کہلائے۔

سلطان محمود غزنوی کو ہند پر حملوں کے دوران بڑا تنگ کیا۔ چنانچہ ایک حملہ خاص طور پر ان کے خاتمہ کے لئے کیا اور چھ سو کی تعداد میں خاص قسم کی کشتیاں تیار کرائیں جس میں تین تین برچھے لگے ہوئے تھے۔ ان کشتیوں کو دریائے سندھ میں ڈال کر ہر کشتی پر بیس بیس سپاہی تعنات کئے اور باقی ماندہ فوج کو دریائے سندھ کے کنارے پیدل چلنے کا حکم دیا۔ جاٹوں کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے بیوی بچے کسی جزیرے پر بھیج کرکوئی چار ہزار یا آٹھ ہزار کشتیوں پر سوار ہوکر محمود غزنوی کی فوج پر حملہ آور ہوئے۔ باوجود کثرت کے کثیر تعداد میں جاٹ مارے گئے۔ محمود غزنوی نے جزیرے پر پہنچ کر جاٹوں کے اہل و عیال کو گرفتار کرلیا۔

اورنگزیب جس زمانے میں دکن میں مصروف تھا، جاٹوں نے غنیمت جان کر اپنے سرداروں کی قیادت میں عام آبادی پر حملے کئے۔ یہاں تک انہوں نے اکبر کے مقبرے کو توڑنے کی کوشش کی۔ اورنگ زیب نے ان کی سرکوبی کے لئے مقامی فوجداروں کو مقرر کیا۔ لیکن جب اورنگ زیب کے بعد سلطنت مغلیہ کا شیرازہ بکھرنے لگا تو بھرت پور اور اس گرد نواح کے جاٹوں نے اپنے سردار سورج مل کی سردگی میں آگرہ اور دہلی کے درمیانی علاقہ میں دہشت پھیلادی۔ ان کے ظلم و ستم سے غضبناک ہوکر احمد شاہ ابدالینے ان کی گوشمالی کی۔ لیکن ان کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں کرسکا۔ بعد میں رنجیت سنگھ ایک ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ یہ ریاست مختصر عرصہ کے لئے قائم ہوئی تھی۔

سکھ جو اٹھارویں صدی کے آخر تک پنجاب کے حاکم بن چکے تھے۔ ان کی سلطنت کے قیام میں نادرشاہ افشار اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں نے بھر پور مدد دی اور ان حملوں کی بدولت مغلیہ سلطنت نہایت کمزور ہوگئی، اور سکھ ایک قوت کے ساتھ ابھرے اور انہوں نے مغلیہ سلطنت کے ذوال کو اس کے انجام تک پہنچایا۔ سکھوں کی اکثریت جاٹوں پر مشتمل تھی اور جاٹوں کا عمل دخل بہت تھا۔ بیسویں صدی کی ابتدا میں انگریزوں کے خلاف تحریک جلی جس کا مشہور سلوگن جٹا پگڑی سنھال جٹا تھا۔ اس تحریک میں حصہ لینے والے بھی سکھ تھے۔ اس کا روح رواں مشہور انقلابی بھگت سنگھ کا چچا۔

جاٹوں کے خصائص

جاٹ گنوار پنے اور بے وقوفی میں ضرب مثل ہیں اور لین دین میں سادہ لوح ہوتے ہیں۔ اپنے ہم جنسوں کے مقابلے میں بھینسوںاور گایوں کا انہیں زیادہ خیال کرتے ہیں۔ ان کا پیشہ زیادہ تر کاشکاری ہے۔ وہ نہ صرف دلیر واقع ہوئے ہیں بلکہ اچھے سپاہی واقع ہوئے ہیں۔ محمد بن قاسم کے مقابلے میں انہوں نے مزاحمت کی تو محمد بن قاسم نے ان کی بڑی تعداد گرفتار کرلیا اور انہیں حجاج بن یوسف کے پاس بھجوا دیا۔ ہندو جاٹوں میں ایک سے زائد شادی کا رواج تھا۔ ۔ ۔ چچ نے جٹوں پر اچھوتوں کی طرح پابندیاں عاعد کیں تھیں۔ اس کے متعلق ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کا کہنا ہے کہ جاٹ سندھ کے قدیم باشندے تھے۔ چچ نامہ میں ہے کہ چچ نے لوہانہ کے جٹوں سے جو شرائط منوائیں ان میں مصنوعی تلوار کے علاوہ کسی قسم کا ہتھیار نہیں باندھیں گے، قیمتی کپڑے اور مخمل نہیں پہنیں گے، گھوڑے پر بغیر زین کے بیٹھیں گے، ننگے سر اور ننگے پیر رہیں گے، گھر سے باہر نکلتے وقت کتے ساتھ رکھیں گے، گورنر کے مطبخ کے لئے لکڑی کے علاوہ رہبری اور جاسوسی کے کام انجام دیں گے۔

مذہب

جاٹوں میں تین مذہب کے لوگ ہیں۔ مسلمان جو دریائے سندھ کے نچلے والے حصہ میں رہتے ہیں، سکھ پنجاب میں اور ہندو جو راجپوتانہ میں رہتے ہیں۔

جاٹ قبائل

 

ایک جاٹ

  • ، ابر = ایلاوت، اندار، آنتل، آریہ، ایساکھ، اتوال، عطری، اولکھ، اونکھ، اوہلان، اوجھلان، اوجلہ، اتار، اوہلان، اوڈھران
  • ، ببر، بگداوت، بجاد، باجوہ، بل، بلہن، بلہار، بان، بینس / ونیس، بسی، باٹھ، بلاری، بنہوال، بھنگال/ بھگو، بھنڈر، بھلی، بیلا، بسرا، بھیڈی، بھوپارائے، بھلر، بھڑنگ، بسلا، برار، بدھوار، بورا، بسرا، بھمبو
  • ، پاہل پ، لاول، پنکھال، پائے سر، پنیچ، پنوں، پنیگ، پریہار، پرودا، پھور، پھاروے، پھوگٹ، پھلکا، پیرو، پوتالیا، پونیا، پنگال، پلکھا، پرادا
  • ، پوتل/پوتلیا، تنوار، تور، تھنڈ
  • ، ٹکھرٹاہلان، ٹنگ، ٹک، ٹاٹڑان، ٹبواتھیا، ٹھاکران، ٹوانہ، ٹسارٹومر
  • ، جکھد، جگلین جلوٹا، جنجوعہ، جہل، جنوار، جٹاسرا، جڑانہ، جھاجھریا، جوئیہ، جون/ ہون، جوڑا، جاکھڈ
  • ، چاہل، چھٹہ، چوہان/چوہان، چبک، چیمہ، چھلڑ، چھکارا، چھونکر، چھینا، چمنی، چدھڑ،
  • ، دباس /دواس، ڈاگر/ داگر، دھاما، ڈھا/ ڈہایا، دلال، ڈھیل/ول، ڈالتا، ڈانگی، دراد، ڈسوالاس، دیول، دھامی/دھاما، ڈھالیوال، ڈھاکا، دھنکھڈ، ڈھانچ، ڈھانڈا، دھنویا، دھارن، ڈھلون، ڈھنڈسا، دھنڈ وال، ڈھونچک، دھل، دوہان، ڈاہیا
  • ، رائے، رانا، رانجھا، راٹھی، راٹھول، راٹھور، رندھاوا، راپادیا، راوت، ریڈھو، ریار، راج، روہیل/روہیلہ، راسٹری
  • ، سانولا، سہوتا، سہروت، سلار، سلکان، سامل، سمرا، سہن پال، سنگا، سنگدا، سنگوان، سنسوار، سندھو، سپرا، سرن، سروہا/ سروہی، سراٹھ، ساسیسیکھون، سیوچ، سیوکند، سیوران، شاہی، شیر، گل سویاسنگروت، سدھو، کاوار، سوہل، سولگی، سولنگی، سوہاک، سیال،
  • ، کھنگس، کادیان، کجلا، کاک، کاکڑاں / کاکڑ، کاٹھیا، کلان، کاہلون، کلکل، کانگ

رائے،کھرل، کٹاری، کشوان، کھر، کھیر، کھرپ/ کھرب، کھتری، کھٹکل، کھوکھر، کلیر، کوہاد، کلار، کوندو، کنتل، کٹاریا/کٹار

  • ، گالان، گتھوال، گورایہ، گزوا، گھمن، گور/ گوریا، گریوال، گلیا، گوہیل، گمر

،گرلات، گوندل، گسر، گوپی رائے، گکلن، گل/گیلانی، گزوا، گوھا

  • ، ہالا، ہنس، ہیر، ہدا، ہینگا
  • ، لالی، لکھن پال، لامبا، لاتھر، لتھ وال، لوچب، لوہان، لوہاریا، لنگڑیال
  • ، مچھر/ ماتھر، مدیرنا، مدھان، ماہل، ملک، مل، ملھی، منکا/ مان، منگٹ، مند/منڈ، مندر، ماولا، موہلا، منہاس، مردھا، مٹھا، موکھر، مور، مانگٹ، مدرا ، مدیرنا
  • ، ناپال، نلوہ، ناندل، نین، نیپال، نروال، نوہار، ناصر، ناہر، نجار، نونیا/ نون
  • ، ورک، ورائچ، وٹ دھن، وَلہ

 

Jagga Jatt

agga Jammeya,fazar di baangay Laudhay vele khed da firay. Jagga jammeya te milan vadhaiyan vadda hoke dakay marda. Jagge mareya Lyllpur daka taran kharhak gayian. Jagga was born in 1901 or 1902 in village Burj Singh Wala,teh. Chunnian,distt. Kasur. Jagga’s father Makhan Singh passed away when Jagga was only a small child. He grew up under the care of his Chacha Roop Singh and mother Bhagaan. Makhan Singh and Bhagaan had six children before Jagga was born but nobody of them survived. At last Makhan Singh went to the nearby village Sodhiwala to meet and pay tribute to a saint Sodhi Inder Singh. Sodhi Inder Singh told them to buy a Bakkra (male goat) before the birth and told that it should be touched by the newly born. The Sage Inder Singh also told them to not to name the child with initials of J. But when the child was born, an uncle of the child insited on naming the child Jagat Singh which was against the directions of the saint. In a few days Bakkra fell ill and died. So in the course 12 Bakkras died and were buried in the backyard. Finally young child survived by the great saint’s blessings. Jagga owned 10 muraba(250 acres of land) so he was not asked to do anything by his chacha and mother. He was grown up as a pampered child. Once he cut a lot of sugar cane from his one uncle and distributed those to his friends. For that, he was given a hard beating by his uncle. Jagga went at night and broke all the Tinds of his uncle’s khuh and threw into the well. When this uncle told his shirika to go to the police and report against Jagga, the relatives asked him, “who told you to name him Jagga?” So he realized his mistake. In village Burj Singh Wala, most families were Muslim Telis but only 17 or 18 families of Sidhu Jatts. Both communities used to live in harmony. When Jagga was in his teen age, he started to go wrestle at akhara (Open Wrestling Ring) with his friend Sohan Teli. Sohan Teli maitained his friendship with Jagga till the last breath of Jagga. Because of Jagga’s fondness of wrestling, this is said in a folk song. Jagge Jatt da jahngiya patt da killay uttay tangeya reha. Jagga married Inder Kaur of village Talwandi. They had only a girl child, Gaabbo who is living now at village Vanwala near Lambi in Mukatsar distt. She is believed to be in her 80s now. During the English rule, all the people of guts and independant nature were watched carefully by the British. Govt’s first units of Informers were Patwari, Nambardar,Thanedar and Safedposh. Jagga was of a medium height, wheatish color, sharp features, strong body, trimmed beard and double ringed kunddian muchhan. One day Jagga went to Patwari to get the numbers (farad) of his land. Jagga paid no respect to the Parwari and paid no bribe. Patwari refused to give him the Farad. Jagga gave him the worst beating of his life that he had to give him farad and apologize as well. In one of the folk songs we hear, Kachay pulaan te larhaiyan hoiyan Chhaviyan de ghund murh gaye. This Kacha Pul was located between Jagga’s village Buraj and his in law’s village Talwandi. Beharhwala’s Nakai used to live at their Bhua’s village in Talwandi. These Nakai had some relation with Maharja Ranjit Singh’s in-laws and were very notorius for their evils. Nobody could cross the bridge without their permission. One day,when Jagga was going to cross the bridge, one of the Nakai hit his horse with bamboo club (daang) thus horse and Jagga both fell. Though Jagga was alone, Nakais were 5-6 brothers. They had a fierce fight and finally Jagge ne vahni paa lae (gave them a tough beating). Later those Nakais fled the area and settled in Lahore. Jagga’s fame in the area resulted in attracting the ire of the Jaildar of Kal Mokal. Jaildar considered Jagga’s braveness to be a challange. He stucked Jagga in a false case and convicted him for 4 years in the jail. When Jagga got released and came back to Buraj, in those days in vill. Bhai Feru a theft incident happened. The inspector of the area was a person named Asgar Ali who was a friend of Jaildar. Both Jaildar and inspector found this theft incident to be another chance to harass Jagga. They called Jagga to apear at the police station but Jagga declined to go. The leading and friendly people of Jagga persuaded him to appear at Police station. Their names were Kehar singh and Mehal Singh of Kawaan village and Dulla Singh of Jajjal village. This Dulla Singh made Jagga his Dharam da Puttar. (In later days this Dulla Singh and his family killed 8 people and were hanged to death). Jagga agreed to go to the police with them but on the way he disagreed to go as he thought the haughty nature of inspector Asgar Ali. He said his fellows clearly, “If this inspector said something insulting, that will be hard to swallow for me. That’s why I’m not going back.” From that day Jagga went underground and became a Dacoit. First he snatched a riffle from a police sapoy then another from Atma Singh of Acharke village. The first decoity by Jagga was at village Ghumiari at some goldsmith’s house. Ghumiari vilage is located at the border of Kasur and Lohore distts. Jagga’s other companions were Jhanda Singh Nirmal Ke and Thakur Singh Mandeyali. They robbed all the gold from them and lit fire to Vahis(ledgers) which were the loan records of the poor mass. They shared the gold at Jhanda Singh’s khuh which was almost 1/2 ser(4 pounds?) for everyone in the group. After that Jagga made his own group. His new members were Banta Singh,his childhood friend Sohna Teli,Lalu Nai (he was Kaana from one eye), Bholu and Bawa. Lalu Nai was an expert in cooking, when all used to sleep at night Lalu Nai was guarding them with riffle. Jagga used to tell police in advance whatever village he went. “Capture me there or don’t vex the innocents” were his words. Once he went to his nanke (maternal grandparents home) at village Ghumman Ke to watch a drama. Even though he had sent an advanced notice to police, no police personnel came all night. Jagga torned all the ledgers of that village’s Bania and Shahukars and freeholded the poors from heavy loans. A woman from village Lakhu ke was his dharam Bhen (baptised sister) who used to serve them food. Jagga gave her countless gold coins. Samelike once Jagga saw an old man with no warm clothes selling carrots in extreme cold,when asked, that oldman had no son or daughter. He gave him plenty of gold. In those days police would sleep in locked police stations,from the fear of Jagga. Police feared Jagga would decoit them their riffles and other amunition. Inspector Asgar Ali made the two entrances of the station for his protection. Jagga knew that dacoits don’t live long lives.He engaged his daughter to his fellow Kehar Singh Kawan’s younger brother Makhan Singh’s son Avaar Singh. He made all the arrangements and sent all gold and dowry even before the marriage. Oneday Jagga decided to go to Sidhupur with his companions. He decided to spend that noon in Malangi’s house. He asked his fellow, Lallu Nai to arrange the food. Lallu Nai’s village Lakhu Ke was very near from Sidhupur. Lallu Nai called his five brothers in guise to meet him and told them to bring food and sharab with them. Jagga decided to have a few drinks before the meal. Jagga and Banta started drinking while Sohan Teli had to go to meet a friend in the neibouring village and Lallu Nai had to do watching with his brothers. So they didn’t drink. For sometime they enjoyed drinking and talking. Malangi’s mother’s was in such a happy atmosphere first time in two years. That day Malangi’s mother was feeling like Malangi is back in Jagga’s disguise. Jagga told the old woman that O mother, Malangi’s soul might not be in rest till his revenge is not taken. Today is the day to take care of his complaints. All ate meal happily together, Sohan Teli went to meet his friends. Lallu Nai and his brothers went out for their watchman job with their riffles. Intoxicated with alcohol, both jagga and Banta slept that hot afternoon on a Manja under the Boharh tree in the yard. Suddenly, Lallu Nai and his brothers started to shoot the sleeping and intoxicated Jagga and Banta repeatedly. Sohan Teli came back after hearing the shooting. He was also shot dead from behind by one of Lallu Nai’s brother when he started attacking Lallu. Jagga vaddeya bohrh di chhanve naun man ret bhij gaee Purna, Naiyan ne vadd chhaddeya Jagga soorma. With the news of Jagga’s death the whole area was under shock and sorrow.Nobody believed Jagga Soorma’s death. As a reward Lallu Nai got ten murabas of land and a Ghorhi from the govt. He was imprisoned later in some other case where he was beaten to death by some prisioners. Jagga lived for only 29 years of his age. And moreover all his adventures and dacoities happened in a short span of only 3 months

Role Of Spices In Punjabi Food

It’s stating the obvious when one says that a Punjabi dish is incomplete without spices. InPunjabi Food, spices are used to hoist the tang and flavors of Punjabi delicacies. Cardamoms, cinnamon, garam masala, cilantro mint and many more are exceedingly used for preparing a finger licking dish. Several delicious Punjabi recipes are extensively imparted with the blend of these spices. In a Punjabi dish, these spices are not just ingredients but the creator of charm, flavor and aroma.

These spices have been playing an essential role for escalating the economic conditions since the very old time period. In today’s time of renovation and technical advancements, though the spice trade has changed in a variety of ways but the role and importance is still the same.
The worth and requirement of these spices does not limit only to Punjab; There is a huge demand of these spices in other parts of the country and globe as well. These are exported to the various locations of the world.

Some of the popular Punjabi cuisine like Shahi Paneer, shahi pulao, and chicken korma are improved with these spices. Some of the dishes are flavored with the seeds and some are with the paste of handful spices.


Ginger, cloves, Garlic, arrowroot, musk mallow, mango powder, stone leek, onion powder, black pepper, asafetida, turmeric are tremendously used to improve the tang and flavors of Punjabi food.
All in all, Punjabi spices play an important role in any customs and treated as a base of Punjabi cooking.

بادشاہی مسجد کی کہانی ایک تاریخی دستاویز

 


بادشاہی مسجد کی کہانی ایک تاریخی دستاویز

(محمد جاوید اقبال صدیقی)

آیئے آج آپ کو بادشاہی مسجد لاہور کی تاریخ بتاتے ہیں ویسے تو اس بلند و بالا عمارت اور شایانِ شان مسجد کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکاہے مگر آج کی تحریر نہ صرف منفرد بلکہ تاریخ کے اوراق سے حاصل شدہ ایک شاندار تحقیق بھی ہے جسے پڑھ کر امید کیا جا سکتا ہے کہ یہ مضمون قلمکاری کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ بہرحال یہ تھی ” اپنے منہ میاں مٹھو “ بننے والی بات مگر حقیقت اس سے کچھ مختلف بھی نہیں ہے۔جب آپ اسے پڑھیںگے تو آپ کو محسوس ہو گا کہ واقعی حالات و واقعات اور سن عیسویں کا ذکر بہت باریک بینی اور تحقیق کے ساتھ درج کیا گیا ہے۔ 

مغلیہ سلطنت کے شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کی بصیرت و آگہی اور مسلمانوں سے محبت کے پیشِ نظر بادشاہی مسجد کی تعمیر لاہور میں ہوئی ۔بادشاہی مسجد لاہور، پاکستان اور جنوبی ایشیا کی دوسری بڑی مسجد ہے۔اسے دنیا کی پانچویں بڑی مسجد میں شمار کیا جاتا ہے، مسجد حرم،مسجد نبوی،مسجد حسن دوئم کاسا بلانکا،فیصل مسجد اسلام آباد کے بعد اسی کا نمبر ہے ۔فیصل مسجد بننے سے قبل اس کا شمار پاکستان کی سب سے بڑی مسجد میں کیا جاتا تھا۔اس میں دس ہزار نمازی اندر اور دس ہزار صحن میں نماز پڑھ سکتے ہیں۔یہ 1673 ءسے 1986 ءتک دنیا کی سب سے بڑی مسجد رہی،اس کا صحن دنیا کی مسجدوں میں سب سے بڑا صحن ہے،اس کے مینار تاج محل کے میناروں سے13 فٹ9 انچ زیادہ اونچے ہیں۔مسجد کا صحن 278,784 مربع فٹ وسیع ہے جس میں تاج محل کا پورا پلیٹ فارم سما سکتا ہے۔

بادشاہی مسجد لاہورچھٹے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیرنے بنوائی تھی،اس کی تعمیرمئی1671ءمیں شروع ہوکراپریل 1673ءمیں مکمل ہوئی،تعمیرِمسجد کی دیکھ بھال اورنگزیب عالمگیر کے رشتہ کے بھائی مظفر حسین (فدائی خان کوکا)نے کی،مظفر حسین1671ءتا 1675ءلاہور کاگورنر رہا،مسجد کو اورنگزیب عالمگیرکے حکم پرقلعہءلاہورکے بالکل سامنے بنایاگیاتاکہ بادشاہ کو آنے جانے میں آسانی رہے،اس بات کے لئے قلعہ میں ایک دروازہ مزیدبنایاگیا جو عالمگیری دروازے کے نام سے منسوب ہے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانہ میں اس مسجد کا بڑا غلط استعمال ہوا،پوری مسجد کو گھوڑوں کا اصطبل اور اسلحہ خانہ بنا دیاگیا،چاروں میناروں کے گنبد توپوں کےلئے استعمال کئے گئے جس سے ان کو سخت نقصان پہنچا،انگریزوں نے جب سکھوں کو شکست دی تو مسجدکے استعمال کو بھی بحال کیا ،اصطبل اور اسلحہ خانہ قلعہ میں منتقل کیا،مگر مسلمانوں سے ان کوخدشات لاحق تھے اس لئے مسجد کی ایک بڑی دیوار منہدم کردی تاکہ مسلمان مسجد کو قلعہ کے طور پراستعمال نہ کرسکیں۔

1852عیسویں کے بعد مسجد کی مرمّت کا کام شروع ہوا،اور مسجد میں نماز کے اجتماعات جاری ہوئے۔1939ءسے1960ءتک اس مسجد میں مرمت ہوتی رہی اور تقریباََپچاس لاکھ روپیہ خرچ ہوا،یہاں تک کہ مسجد اپنی اصلی حالت میں آگئی۔مرمّت کا کام زین یار جنگ بہادر کے ہاتھوں انجام پذیر ہوا۔22 فروری1974ءمیں دوسری اسلامی کانفرنس کے موقع پر 39 اسلامی ممالک کے سر براہوں نے یہاں پر نمازِ جمعہ ادا کی ،مولانا عبدالعزیز آزاد خطیبِ مسجد نے امامت کی،اس مسجد کے صدر دروازے کے قریب ایک چھوٹا سا عجائب گھر بھی ہے جس میں حضوراکرمﷺ،حضرت علی رضی اللہ عنہ ،اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کے تبرکات رکھے ہوئے ہیں۔سن2000 ءمیں کچھ مرمت اور تزئین کا کام دوبارہ شروع ہوا،سنگِ مر مر کے ٹائلز لگائے گئے،اور2008 ءمیں صحن میں سرخ پتھر کے ٹائل لگائے گئے۔یہ پتھرپرانے پتھروں کے مماثل راجستھان( بھارت) سے منگوائے گئے تھے۔


بادشاہی مسجد لاہور کا ڈیزائن جامع مسجد دہلی کی طرز 
پرہے جس میں اسلامی،ایرانی،مشرقِوسطیٰ اور ہندوستانی


عمارت کاری کے ملے جلے اثرات پائے جاتے 
ہیں۔صدر دروازے کی سیڑھیاں سنگِ علوی کی ہیںجو سنگِ مر مر کی ایک قسم ہے،اصل مسجد کی چھت سات مختلف حصوں میں تقسیم کی ہوئی ہے جو محرابوں پر مشتمل سات گنبدوں سے پاٹی گئی ہے،بیچ کے تین گنبد دوہری اونچائی کے ہیں ،جبکہ بقیہ چار گنبد چپٹی شکل کے ہیں۔بیچ کے تینوں گنبد سفید سنگِ مر مر کے ہیں۔مسجد کا صدر ہال جہاں امام کھڑا ہوتا ہے،منبت کاریStucco کی بہترین مثال ہے،دیواروں اور چھت کی روغنی تزئین Fresco اور سنگِ مر مر کا inlaid کام بہت عمدہ کیا ہوا 
ہے۔بیرونی دیواروں پر سنگِ سرخ پر سنگِ مر مر کا چھلائی اور کارنسوں کا کام دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے،سنگِ مر مر کی جڑائی کا کام بھی بہت صفائی سے کیا گیا ہے،پھول پتوں میں کنول کے پھول سفید سنگِ مر مر سے سرخ پتھر میں پیوست کئے گئے ہیں۔پھولوں کے ڈیزائن ہندی یونانی،وسطی ایشیاءاور ہندی عمارت کاری سے مشابہت رکھتے ہیں ۔مغل نقش و نگار اور شایانِ شان 
عمارتکاری میں توازن Symmetry کا بڑا خیال رکھا جا تا تھا،اسی لحاظ سے شمال اور جنوب میں دروازے نہیں بنائے گئے کیونکہ شمال میں راوی بہتا تھا،دروازہ نہیں بن سکتا تھااس لئے جنوب میں بھی دروازہ نہیں بنایا۔دیواریں سرخ اینٹوں سے چونے کے گارے کے ساتھ بنائی گئی ہیں،اصل فرش سرخ اینٹوں سے بنایاگیا تھا ،بعد میں مرمت کے وقت سنگِ سرخ استعمال کیا گیا،صدر ہال میں جو سنگِ مر مر استعمال کیا گیا ہے اسے ”سنگِ ابری“ بھی کہتے ہیں۔قرآنی آیات صرف دو جگہ لکھی گئی ہیں،ایک صدردروازہ پر اور دوسری جگہ محراب و منبر کے اوپر کلمہ لکھاہوا ہے۔


مقبرہ علّامہ اقبال ؒ بادشاہی مسجد لاہور کے صدر دروازہ کے پاس حضوری باغ میں سیڑھیوں کے ساتھ ساتھ بنا ہوا ہے،
یہ مقبرہ مستطیل شکل میں سنگِ سرخ سے بنایا گیا ہے،مشرق اور جنوب میں ایک ایک دروازہ ہے اور شمالی دیوار میں سنگِ مر مر کی جالی لگی ہوئی ہے۔اندرونِ مزار علامہ اقبال ؒ کی کتاب ”زبورِ عجم “ سے چھ اشعارمنتخب کرکے خطاطی کی گئی ہے،مزار کا سنگِ مر مر افغانی لوگوں کی طرف سے تحفہ میں دیا گیا تھا۔لوحِ مزار پر قرآنی آیات کندہ کی گئی ہیں،اس مقبرہ پر اس زمانے کے ایک لاکھ روپئے خرچ ہوئے تھے،اور عمارت 13 سال میں مکمل ہوئی تھی،تعمیر میں تاخیر اس لئے ہوئی کہ تقسیمِ ہندوپاکستان کے بعدجے پور سے پتھر آنا بند ہو گیا تھا،سنگِ سرخ جے پور سے اور سنگِ مر مر مکرانہ راجپوتانہ سے آتا تھا۔مزار کا پتھر افغانی لوگوں نے فراہم کیا تھا ،یہ وہی پتھر ہے جو بابر بادشاہ کے مزار میں استعمال ہوا ہے،اسے لیپز لزولی کہا جاتا ہے۔مقبرہ کی تعمیر کے لئے علامہ کی وفات(21 اپریل1938 ئ) کے بعد چودھری محمد حسین کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی تھی جس کے بعدبہت سے ڈیزائن دیکھے گئے ،حیدرآباد دکن کے چیف انجیئنر جناب نواب زین یار جنگ بہادر کا ڈیزائن پسند کیا گیا جو افغانی مورش بلڈنگوں کا نمونہ تھا،تاخیر کا باعث فنڈز کا نہ ہونا بھی تھا کیونکہ کمیٹی حکومتِ وقت سے کوئی امدادلینا نہیں چاہتی تھی لہٰذہ اقبال ؒکے چاہنے والوں نے ہی فنڈز فراہم کئے۔مزار پر پاکستانی رینجرز کے دستے تعینات رہتے ہیں ۔


بادشاہی مسجد آج بھی مغلوں کی عظمت کی گواہی اور جاہ و جلال کی تصویر ہے ۔ مغل فنِ تعمیر کا کمال یہ ہے کہ اس کے چاروں گنبدوں پر چڑھ کر چند کلو میٹر دور مقبرہ جہانگیر کے میناروں کو دیکھیں تو صرف تین ہی مینار نظر آئیںگے چوتھا چُھپ جاتا ہے ۔ اس طرح جہانگیر کے مقبرے سے بادشاہی مسجد کے میناروں کو دیکھیں تو وہاں سے بھی صرف تین ہی مینار نظر آتے ہیں ، چوتھا نظر وں سے اوجھل ہی رہتا ہے

Punjabi basket weaving

The tradition of Punjabi basket weaving.
There was a time when Punjabi villages were completely self-dependent. Crucial items of daily use– like tokri (baskets) and gohle (pots) were widely manufactured locally. The baskets in particular were made out of the wood of Mulberry trees (shahtoot), which were a staple part of the landscape of pre-modern Punjab. These trees, crucial to a number of traditional crafts, were quite common alongside wells and fields but you would be lucky to come across them in rural Punjab today.
Mulberry trees used to be associated with a number of other uses as well. Owing to the density of its canopy, it was popular among the travelers for a rest under unrelenting summer heat. The wood of these trees was also used for various traditional games – the flexible timber being ideal for little boys to fashion rural bows and arrows. These trees have also entered the common culture, being associated with a number of folk songs as well, the most popular of them being Malkiat Singh’s ‘Tutak tutak tutiaan’.

The baskets or tokre made from mulberry trees’ wood were used for a number of purposes. Women used to carry the food for their husbands in the fields. These were also used for feeding the buffaloes and cows and, upturned, for providing warmth to hens and chickens at night. The waste of domesticated animals was disposed off using these baskets and this practice resulted in development of a number of teasing folk songs over time.
Sickles were used to cut mulberry wood into sticks and these sticks were woven by experienced craftsmen. Heavier sticks were used to weave bigger baskets – ‘tokra’ and slender ones were used for weaving smaller baskets – ‘tokri’. The diameter of a bigger basket (tokra) used to be around 3 ft and the smaller basket (tokri) used to be around half a foot smaller than that.
The practice of weaving and using these baskets (tokri and tokra) is, sadly, dying a slow death. Most of the new age villagers prefer solid baskets made of plastics and the household trade of weaving these baskets is rapidly on the decline. These are hardly to be seen in the modern Punjab and the urban kids are becoming oblivious to their rich cultural past quite rapidly.

Marriage Songs

Weddings of Punjab are quite famous for their heartwarming rituals. All the near and dears of Bride and Groom showers blessings on them by dancing and singing. The rip-roaring beats of Punjabi wedding songs fills the minds with excitement and happiness make everyone dancing…

A majority of the Punjabi Lok Geet are devoted to the themes of weddings and marriages. Melodious beats, high tempo and entertaining lyrics are featured in this vibrant theme. Such songs are sung with high spirits and fervor, mainly by groups of elderly and married women. They sit together singing about the rituals and the different stages involved in a wedding.

Suhaag is a nuptial song sung by the women from the bride’s party. It addresses the intense feelings experienced by the bride on her wedding day. Anxiety about leaving her paternal home behind and embracing a new life; her hopes, desires and fears; fulfilling expectations and making adjustments in the new family; wishes and blessings of a safe and happy environment for the bride are sung.

Punjabi Lok Geet Ghorian is the male counterpart of Suhaag. The female group on the bridegroom’s side sings songs that are centered around the various grooming activities the bridegroom goes through on his wedding day. The morning’s ceremonial bath, the extravagant dress, mounting the horse and arriving at the venue with the marriage party are sung about in light hearted verses.

Punjabi Tappe have their own taste on different occasions. The tunes of Tapa (small couplets depicting intense emotions), Boliyan (combination of various tape)-accompanies the female circle dance form ‘Giddah’ and Lambe Gaunh (long songs)- usually sung in weddings are rife in the Kok Geet of the state.

Other popular tunes include Mahiya, Jugni, Jindua, Dhola, Kafian, Dohre, etc. These diverse tunes have a distinct style, context and function. Different tunes are sung on different occasions.