The Lak لک tribe is spread all over the world. But most of the Lak tribes are found in abundance in Arab countries. There are an estimated two million tribes in Iran and quite a few in Iraq. People of the Lak race are bold, courageous and fearless in nature.
In Pakistan, Laks are found in large numbers in various parts of the country and mostly in Sargodha in Punjab. One Lak village is located in Tehsil Phalia District Mandi Bahauddin. There are quite a number of Laks in this village who are very fond of Chaudharahat. According to a genealogy, it is believed that the people of this village came from the village of Lak in Sargodha.
لک قبیلہ پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے لیکن زیادہ تر لک قبائل عرب ممالک میں کثرت سے پائے جاتے ہیں ایران میں ایک اندازے کے مطابق بیس لاکھ قبائل اور عراق میں بھی کافی حد تک پائے جاتے ہیں لک نسل کے لوگ دلیر جرات مند اور نڈر طبعیت کے حامل ہیں پاکستان میں لک ملک کی محتلف حصوں اور زیادہ تر پنجاب میں سرگودھا میں کافی تعداد میں لک نسل میں پائے جاتے ہیں ۔۔۔۔ ایک لک گاؤں تحصیل پھالیہ ضلع منڈی بہاوالدین میں واقع ہے اس گاؤں میں کافی تعداد میں لک موجود ہیں جو بہت زیادہ چودھراہٹ کے شوقین ہیں ایک شجرہ کے مطابق لوگوں کا قیاس ہے کہ اس گاؤں کے لوگ سرگودھا کے گاؤں لک سے آئے ہیں۔
۱۸۵۷ کے بعد برصغیر پر برطانوی راج قائم ہوا تو انگریز حکومت نے پنجاب کا زرعی سروے کیا تو پتہ چلا کہ پنجاب کا بڑا حصہ پہاڑی ریگستانی اور تھلوں کی سر زمین ہے۔ یہ تمام اراضی کراؤن لینڈ قرار دی گئی اس بنجر زمین کو کارآمد بنانے کے لیے انگریز حکومت نے نہری نظام کا عظیم منصوبہ بنایا اور اسی منصوبے کے تخت۔ ۱۹۱۳میں اپر جہلم نہر دریائے جہلم سے نکالی گئی۔ اسکا مقصد گجرات منڈی بہاوالدین اور سرگودھا کے غیر آباد میدانی علاقوں کو سیراب کرنا تھا۔ اس نہر کی کھدائی کے دوران ہزاروں ایکڑ اراضی زیر آب آئی۔ جن لوگوں کی زمینیں نہر میں آئی انھیں برطانوی حکومت نے متبادل رقبے الاٹ کیے اور ایک بہت بڑی لوگوں کی آبادی ہجرت کرنے پر مجبور ہوئی۔ ہمارے آباء واجداد بھی انھیں لوگوں میں سے تھے۔ انھیں منڈی بہاوالدین میں Chak No. 13 چک ۱۳ کہ مقام پر رقبے الاٹ ہوئے اور یہاں آ کر آباد ہوگئے۔
آبادکاری
گاؤں کی تمام آلاٹ شدہ اراضی غیر آباد تھی ہر طرف گھاس پھوس اور جھاڑیاں ہی جھاڑیاں تھیں جہاں آکی اور بھچر کے مقامی لوگ بھینس چرایاں کرتے تھے۔ جسے یہاں کہ کسانوں نے اپنی انتھک محنت اور کڑی مشقت کہ بعد آباد کیا اور قابلِ کاشت بنایا تاکہ گاؤں کی معاشی سرگرمیوں کا پہیہ چل سکے۔
جغرافیہ
یہ مین سرگودھا روڈ سے ۶ کلومیٹر کے فاصلے پر مغرب کی جانب واقع ہے۔ اس کے مشرق میں شیخ چگانی مغرب میں آکی جنوب میں بھچر اور شمال میں چک نمبر ۱۲واقع ہیں۔
رقبہ
گاؤں کا مجموعی زرعی رقبہ تقریباً ۳۷مربعے ہے جس جگہ پر گاؤں آباد ہے یہ مربع نمبر ۲۲ ہے۔
آبادی
۲۰۲۳کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق کل آبادی ۲۵۰۰اور گھرانوں کی تعداد ۳۰۰ہے
چوکنانوالی کی وجہ تسمیہ
اپر جہلم کی تعمیر کے دوران گجرات کے بہت دیہات متاثر ہوئے۔ انھیں متبادل رقبے الاٹ کر مختلف چکوں میں بسایا گیا جو لوگ چک ۱۳ میں آ کر آباد ہوئے ان میں اکثریت کا تعلق گجرات کے گاؤں چوکنانوالی سے تھا۔ اس وجہ سے یہ چک ۱۳ سے چوکنانوالی کہلانے لگا۔
برادریاں اور خاندان
یہاں پر مختلف برادریوں کے لوگ آباد ہیں اور مختلف پیشوں سے وابستہ ہیں جو اپنی معاشی اور معاشرتی ضروریات کے لیے ایک دوسرے پر انخصار کرتے ہیں۔ گاؤں کی سب سے بڑی برادری وڑائچ برادری ہے۔ اس علاؤہ
سادات
دھوتھڑ
گجر
چمیے
دھدرا
مچھیانے
گوندل
ملک
راجے
سپرا
مرزے
چوہان
انصاری
کمہار
مراسی
دھبے
ترکھان
بیگ
نائی
دیندار
ماچھی
مسلم شیخ
بھی آباد ہیں۔ ہر برداری مختلف خاندانوں میں تقسیم ہو جاتی ہے جو اپنی الگ الگ شناخت رکھتے ہیں جو عموماً خاندان کے بزرگ یا مشہور شخصیت کے نام پر ہوتی ہے۔ ان خاندانوں میں دادان کے سلطان کے داد کے فضل کے جمعہ کے میاں خاں کے میر داد کے شابل کے جمال دین کے سارو کے حاکو کے بوسال لمبر پھیلے دھروکوٹی چوھدرنے شامل ہیں ۔
ذریعہ معاش
معاش انسانی زندگی کا بنیادی جز ہے۔ دنیا میں زندگی گزارنے والا ہر انسان کوئی نہ کوئی ذریعہ معاش ضرور اختیار کرتا ہے۔ یہاں کی اکثریتی آبادی زمیندار ہے جو زراعت پیشے سے وابستہ ہیں جو کھیتی باڑی کے علاؤہ مال مویشی پالتے ہیں۔ کچھ پڑھے لکھے افراد گورنمنٹ سروس بھی کرتے ہیں جن میں محکمہ تعلیم اور پاک فوج کے شعبے قابل ذکر ہیں۔ اس کہ علاوہ ہنر مند افراد کی بہت بڑی تعداد بیرون ممالک میں مقیم ہے جن میں سعودی عرب دوبئی بحرین پرتگال سپین فرانس اٹلی جرمنی آسٹریلیا شامل ہیں ۔
مشاہیر
بابا اللہ لوک وڑائچ
بابا اللہ لوک وڑائچ اپنے زمانے کے مشہور پہلوان تھے۔ آپ قرب وجوار میں منعقد ہونے والے میلوں میں ویٹ لفٹنگ کے مقابلوں میں حصہ لیتے ۔آپ نے آکی میں منعقد ہونے والے اک مقابلے میں منڑی مٹی اٹھانے کا اعزاز اپنے نام کیا اور اپنے ہم عصر پہلوانوں میں اپنی منفرد پہچان بنائی جب گاؤں آباد ہوا تو گاؤں کے پہلے کونسلر منتخب ہوئے ۔
چوھدری شریف وڑائچ
چوھدری شریف وڑائچ تدریس کے شعبے سے وابستہ تھے۔ آپ چوھدری اور منشی کے لقب سے مشہور ہوئے۔ آپ نے اپنی سخاوت دور اندیشی اور عدل کی وجہ سے شہرت پائی۔ آپ نے ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دیا اور ظالم کے ہاتھ کو روکا۔ آپ کی اہلیانِ دیہہ کے لیے بے پناہ خدمات کی وجہ سے آپ کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
بابا بوٹے شاہ سرکار
بابا بوٹے شاہ سرکار چوکنانوالی کی معروف روحانی شخصیات میں سے تھے۔ آپ کا ۲۲مارچ کو انتقال ہوا۔ اس دن ہر سال آپ کے مزار اقدس پر میلہ منعقد ہوتا ہے جس میں آپ سے عقیدت رکھنے والے قرب وجوار سے حاضر ہوتے ہیں اور مختلف انداز میں آپ سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔
دیگر مشہور شخصیت
چوہدری غلام رسول وڑائچ (مرحوم )
حاجی عمر حیات وڑائچ (سابق کونسلر)
سید غلام عباس شاہ (معروف سیاسی رہنما)
حاجی سخی محمد وڑائچ
حاجی عارف حسین وڑائچ (سابق کونسلر)
ملک غلام عباس (سابقہ چیئرمین عشرہ زکوٰۃ کمیٹی چک13)
ملک جبران (ایڈووکیٹ ہائی کورٹ)
محمد نواز کھو کھر (سابقہ کونسلر)
ماسٹر نواز انصاری (ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ)
چوھدری قمر وڑائچ (سابقہ کونسلر)
وحید احمد مچھیانہ (ایل ایل ایم)
اورنگ زیب وڑائچ
فوجی نذیر وڑائچ
ماسٹراعجاز وڑائچ (ایکس ہیڈ ماسٹر)
حاجی غلام عباس وڑائچ مرحوم (معروف سیاسی رہنما)
ظفر احمد وڑائچ (سابقہ کونسلر )
ڈاکٹر طاہر عباس حاجی انصر وڑائچ (سابقہ کونسلر)
چوہدری نذیر حسین وڑائچ مرحوم ( ایکس فاریسٹ آفیسر)
غلام عباس وڑائچ (صدر پاکستان اوورسیز فورم پرتگال)
عاصم علی مچھیانہ (ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ)
ملک آصف جاوید بشارت دھوتھڑ (سیکرٹری ٹو ایم این اے)
ماسٹر محمد بوٹا وڑائچ (ایکس ایس ایس ٹی ٹیچر)
شاہزیب عارف وڑائچ (ایڈووکیٹ ہائی کورٹ)
مظہر حسین وڑائچ (ایکس کرنل)
عارف درویش(مرحوم )
راجہ تنویر اقبال
ملک الطاف حسین رضی اللہ گجر ( سی ٹی ڈی)
فیاض احمد وڑائچ (بانی ممبر چوکنانوالی ویلفیئر سوسائٹی)
فاروق عباس وڑائچ
(آفیسر SNGPL) مشتاق دھدرا
عزیز احمد وڑائچ
چوہدری خالد وڑائچ (معروف سیاسی رہنما)
مساجد
یہاں پر مختلف مکاتب فکر کے لوگ آباد ہیں جو مختلف نظریات رکھنے کے باوجود ہمیشہ امن اور رواداری کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہاں تین مساجد ہیں جن میں دو کا تعلق بریلوی اور ایک کا تعلق اہل تشیع مکتب فکر سے ہے۔ بچوں کی دینی تعلیم و تربیت اور حفظ و ناظرہ کے لیے ایک مدرسہ مدرستہ المدینہ کے نام سے بھی موجود ہے۔
فلاحی ادارے
کسی بھی گاؤں میں فلاحی ادارے یا تنظیم کا موجود ہونا وہاں ترقی کے راستے ہموار کرتا ہے۔ اسی سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے اک فلاحی تنظیم چوکنانوالی ویلفیئر سوسائٹی کا قیام مئی ۲۰۲۲ میں عمل میں لایا گیا۔ اس کے بانیان میں فیاض احمد وڑائچ اور بھائی غلام عباس وڑائچ شامل ہیں چوکنانوالی ویلفیئر سوسائٹی اپنے قیام سے لیکر اب تک بہت سے فلاحی پراجیکٹس مکمل کر چکی ہے۔ اس میں زیادہ تر پراجیکٹ بھائی غلام عباس سپانسرز کرتے ہیں ۔
The village Wara Alam Shah واڑہ عالم شاہ is in tehsil Malakwal, District Mandi Bahauddin. Amjad Alam Khan, the founder of Wara Alam Shah, who settled the village. The history of this village is known from an elder that this village came into existence about four hundred years ago.
The special thing about this village is that the school was built in Wada Alam Shah when there was no name or sign of the school until far away. A school was built here in 1920 through the tireless efforts of our honorable Mian Shah Muhammad Sahib, in which the dignitaries of the present day studied.
Wada Alam Shah village has a spacious playground for boys. Village has its own union council. There is also a hospital for humans and animals.
موضوع واڑہ عالم شاہ کا موجد امجد عالم خان ہےجس نے گاؤں آباد کیا تھا۔ اس گاؤں کی تاریخ ایک بزرگ سے پتا چلی ہے کہ یہ گاؤں تقریباً چار سو سال پہلے معرضِ وجود میں آیا تھا۔ واڑہ عالم شاہ تحصیل ملکوال ضلع منڈی بہاؤ الدین میں واقع ہے۔
واڑہ عالم شاہ کی خاص بات یہ ہے کہ واڑہ عالم شاہ میں سکول اس وقت بنا تھا جب یہاں پر دور دراز تک سکول کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ یہاں پر 1920 میں ہمارے محترم میاں شاہ محمد صاحب کی بے انتہا محنت کی وجہ سے سکول بنا تھا جس میں دور حاضر کے بڑے بڑے اعلیٰ عہدوں داروں نے تعلیم حاصل کی۔
واڑہ عالم شاہ گاؤں میں لڑکوں کے کھیلنے کے لیے وسیع و عریض میدان موجود ہے۔ واڑہ عالم شاہ گاؤں کی اپنی یونین کونسل موجود ہے۔ یہاں پر انسانوں اور جانوروں کا ہسپتال بھی موجود ہے۔
Main Casts:
Gondal
Majority of village belongs to Gondal community.
Social Personalities:
Aamir Ijaz Akbar Gondal
Ch. Akram Gondal
Muddasir Gondal (Social Worker)
Idress Gondal
Highly Qualified Personalities:
Aamir Ijaz Akbar Gondal (Officer)
Qaswar Usman (SHO Punjab Police)
Adnan Amjad Gondal (Civil Judge)
Dr. Khalid Masood Gondal (Professor Mayo Hospital Lahore)
Mirza Farooq (Advocate)
Dr. Ali Gondal (America)
Schools and Colleges:
Govt Girls High School
Govt High School
گاؤں میں لڑکیوں اور لڑکوں کا دسویں کلاس تک سکول ہے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کا قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مدرسہ بھی قائم ہے۔
Culture:
The lifestyle of the people is very simple and sincere. All children and old people live together. Most of the young male and females are interested in reading, writing and sports.
واڑہ عالم شاہ گاؤں گاؤں کے لوگوں کا رہن سہن بڑا سادہ اور مخلصانہ ہے۔ سب ایک دوسرے کے ساتھ بچے بوڑھے مل جول کر رہتے ہیں۔ نوجوان لڑکوں کا زیادہ تر رجحان پڑھنے لکھنے اور کھیلوں میں ہے۔
Social Welfare Organizations:
Mian Shah Muhammad Welfare and Ehsaas Welfare have a major role in the development and prosperity of the village. Apart from this, many development works have been done.
گاؤں کی ترقی و خوشحالی میں اس وقت ایک بڑا کردار میاں شاہ محمد ویلفیئر اور احساس ویلفیئر کا ہے۔ان ویلفیئرز نے سارے گاؤں کی گلیوں کی مکمل تعمیر کروائی ہے۔ اسکے علاوہ بھی بہت سے ترقیاتی کام کروائے ہیں
The establishment of village Musa Khurd موسیٰ خورد came before the establishment of the United Indian Subcontinent. A large number of Hindus and Sikhs were staying here. But Muslims were also in the minority. On the western side of the village on the right side of the canal was the Hindu cremation ground which was an open field and full of wild bushes. And passing by there, the day was also afraid. Here they used to burn their dead and I have heard regular mention of it from the mouth of my maternal grandmother who was young in consciousness before the establishment of Pakistan.
Musa Khurd was named after an old Hindu Jodhu Musa and they were two brothers. One was named Jodhu Musa and the other was Variya Musa. Jodhu Musa was younger and Variya Musa was the elder brother and both of them had more agricultural holdings. For this reason, two villages came into existence in the name of these brothers, Musa Khurd and the neighboring village Musa Kalan.
After the establishment of Pakistan, Hindu and Sikh pilgrims migrated to India and most of the population migrated and the rest remained Muslims. Even today, in this village, there are many buildings from before the establishment of Pakistan, which tell the story of their time and are worth visiting.
منڈی بہاوالدین کا جنوب مغربی قدیم گاؤں موسیٰ خورد( نکا موسیٰ ) ایک تعارف
موسیٰ خورد کا قیام متحدہ برصغیر پاک و ہند سے پہلے قیام میں آیا، یہاں پر زیادہ تعداد ہندو اور سکھوں کی قیام پزیر تھی لیکن اقلیت میں مسلمان بھی آباد تھے۔ گاوں کے مغربی سمت نہر کے داہنی سمت ہندؤں کا شمشان گھاٹ تھا جو ایک کھلے میدان اور جنگلی جھاڑیوں سے بھرا ہوا تھا اور وہاں سے گزرتے ہوئے دن کو بھی خوف آتا تھا۔ یہاں پر وہ اپنے مردے جلایا کرتے تھے اور اس کا باقاعدہ ذکر میں نے اپنی نانی اماں کے منہ سے سن رکھا ہے جو کہ قیام پاکستان سے قبل ہوش و حواس میں جوان تھی.
موسیٰ خورد کا نام ایک ہندو بوڑھے جودھو موسیٰ سے پڑا تھا اور یہ دو بھائی تھے ایک کا نام جودھو موسیٰ اور دوسرے کا نام وریا موسیٰ تھا۔ جودھو موسیٰ چھوٹا تھا اور وریا موسیٰ بڑا بھائی تھا اور ان دونوں کی ہی زیادہ زرعی ملکیت تھی اور اسی وجہ سے ان بھائیوں کے نام پر دو گاوں وجود میں آئے موسیٰ خورد اور ساتھ والا گاؤں موسیٰ کلاں.
قیام پاکستان کے بعد ہندو اور سکھ یاتری ہندوستان ہجرت کرگئے اور زیادہ آبادی نقل مکانی کر گئی باقی مسلمان رہ گئے۔ آج بھی اس گاؤں میں قیام پاکستان کے پہلے کی کافی عمارات موجود ہیں جو اپنے وقت کا پتہ بتاتی ہیں اور دیکھنے کے قابل ہیں.
Main Casts:
Prominent castes in Musa Khurd include
Lilla
Gondal
Ranjha
Marth
etc
Most of the Musa Khurds are non-agricultural castes. In which
Arayans
Muhajirs
Mochi
Kumhar
Julah
Muslim Sheikhs
Teli
Nai
Tarkhan
etc.
Famous Personalities:
Chaudhry Sher Muhammad Gondal
Chaudhry Ghulam Haider Lilla
Chaudhry Khan Muhammad Lilla
Chaudhary Sultan Mahmud Lilla
Chaudhry Javed Lilla
Chaudhry Parvez Lilla
Chaudhry Safdar Lilla
Sohail Lilla
Ali Nayyar Lilla
Chaudhry Sultan Sikandar Advocate
Chaudhry Ghulam Abbas Numberdar
Maher Dost Muhammad
Chaudhry Hanif Marth
Muhammad Nawaz Gondal
Anar Gondal
Master Ahmed Yar Gondal
Mulazim Hussain Atif Qureshi
Aslam Ranjha
Manzoor Khajana Ranjha
Maher Shaukat
Maher Advocate Naseer Babar
Mazhar Shehzad Mochi
Khalid Iqbal Kumhar
Manoor Iqbal Kumar
Sikandar Hayat Gondal Baati Da
Aslam Gondal
God bless Marth
etc
Educated Personalities:
Among the prominent educational figures of Musa Khurd
Mudassar Qureshi (P.hd)
Ali Nairillah (M.Phil) University of Lahore
Sultan Sikandar Gondal (MA Eng) Panjab University
Sohail Lilla Electrical Engineering
Taimur Gondal (BS IT)
Meher Zeeshan (M.Sc Physic)
Mazhar Mochi
etc. have prominent status.
Crops:
The land of Musa Khurd is very fertile. Prominent fields of the village are
Rice
Sugarcane
Wheat
Bajra
Makai
Jowar
and other seasonal crops are cultivated.
Means of Earning:
Most of Musa Khurd’s population is employed abroad, including Italy, France, England, Spain, Hong Kong, Malaysia in the Middle East, Saudi Arabia, Dubai, Qatar and Kuwait and Oman etc.
In addition, most of them are engaged in agriculture and some of them are employed. Among them
Mudassar Qureshi (Assistant Director Atomic Energy)
Sultan Sikander (Research Officer Punjab Assembly)
Ali Nirullah (School Education Department)
Mazhar Mochi (Punjab Police)
Asif Mochi (Punjab Police)
Osama Zafar (Punjab Police)
Nafeesar Lullah (Nik Clerk Pakistan Army)
Taimur Sikandar Gondal
Hasnat Gondal
Majid Aslam Gondal
Meher Dost Mohammad
are prominent in the business class.
This is the information regarding Musa Khurd which is provided with complete impartiality. May Allah make this village double day and night four times. Ameen
The village Channi Syedan چھنی سیداں is located near Kala Shadian bank of the river chenab in phalia tehsil of Mandi Bahauddin district. It is a historical village.
Neighboring Villages
In the east side of Channi Syedan is Bahri village and in the west is Jago and Qadirabad.
Sources Of Income
The majority of the villagers are engaged in agriculture. Some people also work as laborer. Most of the youth of the villagers are employed abroad.
Sectarianism
In the village some people belongs to Shia family and also Sunni but live like a family with peace.
Major Casts
The majority of the villagers belong to the Kurrar family while there are some other tribes like
Sayyed
Cheema
Khokhar
Arrien
Mahajar
Malah
Kmhar
Muslim Shaikh
Machi
Taili
Famous Personalities
Shamshair Ali Kurar
Saif Ullah Kurar
Nasar Nawaz Kurar
Syed Hassan Numberdar
Syed Qamar Abbas
Syed Ali Abbas
Syed Imtiaz Hussain
Riaz Ahmad Kurar
Haji Muhammad Walayat Kurar
Ansr Kurar
Jamal Hassan Kurar
Sikandar Ali Kurar
Social Personalities
Syed Sabtain Abbas (PPP)
Syed Aoun Abbas
Syed Haidar Bukhari
Azeem Kurar
Asad Kurar
Educated Peoples
Syed Shahid Abbas (Punjab Police)
Syed Aqeel Abbas (Punjab Police)
Major Retired Baati Khan Kurar
Muhammad Anwar Kurar
Shoukat Ali Kurar
Syed Tahir (Pak Army)
Mohsin Khokhar (Punjab Police)
Mohsin Ali (Pak Army)
Syed Nasir Abbas
Schools
There are two primary schools in this village
Shrines
Syed Saidan shah Al mahroof dada g shrine
Health Facilities
There is no hospital in the village. People get medicine of minor diseases from Phalia and Major from Qadirabad.
کچھ تعارف اس مٹی کا جس پر جنم لینے کے بعد اس کی خوشبو بیسوں دیس دور رہ کر بھی نہیں بھول سکتا جس کے ہرے بھرے کھیت لہلہاتی فصلیں جس کی بارونق گلیاں جس کے ہسدے وسدے بازار جس کے چہکتے مہکتے چہروں والے انجانے بھی جانے پہچانے سے لوگ محبتاں بھریا ساڈے سوہنے تے من موہنے دیس پاکستان دے گھبرو جواناں دے صوبے پنجاب دے ضلع منڈی بہاؤالدین دے ایک مشہور ناں فقیراں دا لوک زاہد شہید سندا
سندا ضلع منڈی بہاؤالدین کی تحصیل ملکوال میں واقع ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جو سر سبز و شاداب باغات اور قدرتی مناظر سے مالا مال ہے۔ سندا کے مشرق میں اک چھوٹا سا گاؤں گنیاں ہے اور مغرب میں گڑھ قائم ، شمال میں میانہ گوندل ،جنوب میں پنڈی رانواں اور جنو ب مغرب میں چک 49 اور ہجن واقع ہیں۔
سندا کو 2 محلوں میں تقسیم کیا جاتا ہے محلہ مشرق اور محلہ مغرب دونوں محلوں کے لوگ آپس میں بہت پیار سے رہ رہےہیں اور امن پسند ہیں۔ گاؤں کا کل رقبہ 3000 ایکڑ ہے تقریبًا 95 فیصد رقبہ قابلِ کاشت ہے ۔آبپاشی کے لیے نہری نظام کے ساتھ ساتھ ٹیوب ویل اور پیٹر انجنوں سے مدد لی جاتی ہے۔زرعی زمین ہونے کے سبب لوگ خدا تعالیٰ کی نعمتوں ںسے خوب مستفید ہو رہے ہیں
تاریخ
تاریخی حوالے سے دیکھا جاۓ تو برطانوی حکومت کے بعد دادا حبیب کا نام سندا کی تاریخ میں آتا ہے وه عظیم ولی اللّه تھے انہی کی وجہ سے سندا کو “سندا لوک فقیراں دا “کہتے ہیں۔ سندا کے جنوب میں ایک بہت پرانی مسجد ہے جسکو (پکی) مسجد کے نام سے جانا جاتا ہے یہ اس وقت کی مسجد ہے جب پورا گاؤں کچا تھا صرف اک یہ مسجد اینٹو ں سے بنائی گئی تھی. مسجد کے ارد گرد کی جگہ کچھ عرصہ پہلے تک کھنڈرات کی طرح محسوس ہوتی تھی وہاں سے مٹی کے برتن اور زمانہ قدیم کی چیزوں کا ملنا اس بات کی دلیل ہے کے سندا کے لوگ پہلے یہاں آباد تھے اور پھر آہستہ آہستہ موجودہ جگہ پہ آباد ہو گۓ ۔
آبادی:
سندا کی کل آبادی 5،000 کے قریب ہے۔ 95 فیصد گاؤں میں ہی آباد ہیں۔ 5 فیصد لوگ پاکستان کے مختلف شہروں لاہور، اسلام آباد، سرگودھا اور بھلوال میں قیام پذیر ہیں. سندا کے رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد تقریبًا 2،500 ہے جس میں نصف خواتین ہیں تمام BD ،صوبائی اور قومی انتخابات میں مردوں کی نسبت خواتین کی تعداد کم ہوتی ہے۔
سیاسی شخصیات
سندا کی سیاسی شخصیات میں
چوھدری سعید احمد گوندل
چوھدری وحید احمد گوندل
میاں سرفراز احمد گوندل
حافظ غلام علی گوندل
چوھدری لیاقت گوندل
چوھدری ولایت گوندل
چوھدری الہی بخش گوندل
سامنے آتے ہیں
سندا میں اکثریت گوندل برادری کی ہے اس کے علاوہ جسپال، مہر، سیال، کھچی, ٹاٹری، مانگٹ، مار تھ، لوہار کمہار، نائی، قریشی اور ماچھی وغیرہ بھی آباد ہیں
سماجی، فلاحی اور ترقیاتی سرگرمیوں میں ھمارا گاوں کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ سماجی فلاح و بہبود کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو فنڈذ اکٹھا کر کے موثر طریقے سے کام کر رہی ہے کمیٹی کا انتہائی اچھا قدم یہ ہے کہ گاؤں کے چوکوں اور گلیوں میں لائٹس کا بندوبست کیا ہے جو کسی بھی ہنگامی حالت میں مدد کا سبب بنتی ہیں۔ اس کمیٹی کے ممبران میں
محمد یقوب گوندل ایم اے اسلامیات
حافظ محمد زیبر گوندل فاضل عربی
ارشد محمود گوندل بی اے بی ایڈ
مختار احمد ٹاٹری
شاہ خالد گوندل
ڈاکٹر خالد محمود گوندل
ماسٹر عبدالخاق گوندل ایم اے اسلامک سٹڈیز پی ٹی سی گورنمنٹ پرائمری سکول سندا
ڈاکٹر منور
جیسی عظیم شخصیات کے نام سامنے آتے ہیں۔ اس کے علاوہ تھوڑا وسیع پیمانے پر ملک و قوم کی خدمات کے حوالے سے دیکھا جائے تو سر فہرست ہمارے گاوں کا نام آتا ہے جسکی بہت بڑی مثال ہمارے پیارے بھائی ایس ایس پی زاہد شہید گوندل ہیں، زاہد بھائی خاموش طبع، درویش صفت، منکسر المزاج، اعلیٰ ظرف، نیک نیت اور فرض شناس پولیس آفیسر تھے جنھوں نے دورانِ ملازمت ملک و قوم کی خاطر دن دیکھا نہ رات، گرمی دیکھی نہ سردی یہاں تک کہ راجن پور کے پُر خطر علاقوں میں خود ریڈ کر کے کئی بد نامِ زمانہ ڈاکووں اور لٹیروں سے وہاں کے عوام کو تحفظ فراہم کیا اور بعد میں ایس ایس پی آپریشن لاہور تعینات ہوئے جہاں کچھ عرصہ اپنی خدمات سر انجام دیں بالاخر 13 فروری 2016 کی رات ہزاروں لوگوں کی جان بچانے کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے شہادت کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہوئے اور خالقِ حقیقی سے جا ملے آج جہاں ہمیں ان سے بچھڑنے کا دکھ ہے وہاں ایک فخر بھی ہے کہ ایسی عظیم قربانی کے لیے ربِ کریم نے ہمارے گاوں کا انتخاب کیا اور یہ شہادت ہمارے حصے میں آئی انکی یہ عظیم شہادت ہمارے اندر ایک عظیم جذبے کا سبب بنی اور ہم سب رشتہ دار دوست احباب نے ملکر ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جسکو ایس ایس پی زاہد شہید فاونڈیشن کا نام دیا گیا ہے اس تنظیم کا مقصد مستحق انسانوں کی ہر لحاظ سے اللہ کی رضا کی لیے امداد کرنا ہے انکی اس عظیم شہادت کے بعد منڈی بہاوالدین پولیس لائن کا نام، میانہ گوندل ہائی سکول کا نام انکے نام پہ تبدیل کر دیا گیا ہے اور گاوں سندا شریف کا نام زاہد شہید سندا کر دیا گیا ہے جو ہمارے لیے فخر کی بات ہے اللہ کریم سے دعا ہے کہ انکو جنت الفردوس میں جگہ دے اور انکے صدقے ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے آمین
ترقیاتی کاموں کے حوالے سے دیکھا جائے تو نہری نظام آبپاشی اور سولنگ وغیرہ کے منصوبوں میں
وکیل میاں احمد بخش گوندل
میاں محمد منیر گوندل
مہر محمد امیر
حاجی خضر حیات گوندل
غلام رسول ولد سوئنیی
چوہدری مشتاق احمد گوندل
جیسے ورکر انسان گہری دلچسپی لے کر اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں اس کے علاوہ انسانی ہمدردی چاہے وہ مالی ہو یا پھر کسی مستحق انسان کی مدد ہو تو اس میں میاں احمد بخش ( ناروے ) اور میاں افتخار احمد گوندل (نار وے ) کے ناموں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ان کا انسانی فلاح و بہبود کا جذبہ ایک مسلمہ حقیقت کی طرح اپنی مثال آپ ہے
علم وادب اور موسیقی کے حوالے سے دیکھا جاۓ تو اس سر زمین کے لوگوں کو باذوق پائیں گے۔ سندا کے مشہور و معروف اردو ادب کے شاعر جو کسی تعارف کے محتاج نہیں انکا ذکر کرتا جاؤں جناب میاں خالد محمود ولد میاں محبوب, جناب میاں خالد محمود صاحب اک بہت اچھی طبعیت کے مالک نیک نیت، اعلی ظرف اور با اخلاق انسان ھیں. انکے علاوہ
محمّد اصغر صاحب
محمّد یامین ذوالفقار احمد آکاش،
محمّد زمان
میاں عاصم منیر گوندل
ذوالفقار احمد ناصر
شیراز احمد شیراز
میاں محمّد نواز ظفر
محمّد نواز عرف نازو
کے نام قابل ذکر ھیں۔ موسیقی کے حوالے سے دیکھیں باطی خان جویہ ہمارے لوک گلوکار ھیں جو منڈی بہاوالدین کے ساتھ ساتھ سرگودہا، گجرات اور فیصل آباد کے علاقے میں بھی کسی تعارف کی محتاج نہیں ھیں۔ باطی خان جویہ پیشہ کے اعتبار سے ایک کسان ہے موسیقی کا شوق اور ذوق اس کے اندر شروع ھی سے تھا لیکن باقائدہ طور پر 1975 ء میں QR میوزک سنٹر میں اپنا پہلا والیم ریکارڈ کروایا جس میں انھوں نے اپنی محبت کی داستان بیان کی اور بتایا کے کیسے ظالم سماج راہ میں حائل ہوا۔ باطی خان جویہ نے زیادہ تر خود ھی لکھا اور گایا بھی لیکن تعلیم کی کمی اور وقت کی مصروفیت کی وجہ سے انکی گائیکی محدود رہی۔
سندا کے لوگوں کا ذریعہ معاش زیادہ تر کھیتی باڑی ہے کچھ لوگ پڑھ لکھ کر گورنمنٹ کے اداروں میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے ھیں۔
لیکن اب نوجوان نسل میں زیادہ تر رجحان بیرونے ملک جانے کا ہے سندا کے بہت سے لوگ فرانس، سپین، اٹلی،امریکہ، کنیڈا، سعودی عرب، کویت یوں کہ لیں کہ دنیا کے 7 براعظموں میں سندا کے لوگ دیکھنے کو ملتے ھیں۔ سندا کے لوگ سادہ زندگی بسر کر رہے ھیں سب کے اک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات ھیں اک دوسرے کے دکھ درد میں برابر شریک ہوتے ھیں۔
چند ایک خاندان ھیں جن کے آپس میں تعلقات ٹھیک نہیں ھیں دعا ہے کہ اللّه انکو مل جل کے رہنے کی توفیق۔ شام کے وقت بوڑھے اور نوجوان گپ شپ ک لیے داروں کا رخ کرتے ھیں اور ایک دوسرے کے مسائل پر بات چیت کرتے ھیں نوجوان بز رگوں سے پرانے قصے اور کہاوتیں سن کے لطف اندوز ہوتے ھیں۔
کھلیں
کھیلوں کے حوالے سے گاؤں میں لڑکے زیادہ تر کرکٹ کھیلتے ہیں فارغ وقت میں کام کاج فرصت ملے تو کھیل کے میدان کا رخ کرتے ہیں سندا کے مغرب کرکٹ کھیلنے کا وسیع میدان ہے جو خان سٹیڈیم کےنام سے جانا جاتا ہے اگر گاؤں کے پرانے مشہور اور بہترین کھلاڑیوں کی بات کریں تو سرِ فہرست افتخار احمد گوندل کا نام آتا ہے اسکے بعد طارق محمود گوندل محبوب حیدر شاہ اور محمد اعظم وغیرہ کے نام شامل ہیں۔
شادی بیاہ کے موقع پر علاقہ کی رسم و رواج کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے. شادی کی ایک رسم جو زمانہ قدیم سے چلتی آ رہی ہے “رسمِ حنا “سب ہی کوئی امیر ہے یا غریب اسکو اپنی شادی کا حصہ بناتےہیں بالخصوص اسکو ہمارے بہت پیارے دوست ہر دلعزیز شخصیت سعد ظفر گوندل عرف (HUNTER) کا اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر بھرپور طریقے سے منانا اس بات کی دلیل ہے کہ ہم اپنے کلچر کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
ہمارے گاؤں سندا میں مین بازار سڑک کے دونو ں اطراف شمال سے لے کر جنوب تک پھیلا ہوا ہے جہاں سبزیاں پھل، جنرل سٹور، مٹھائی، جوتوں اور کپڑوں کی دوکانیں ھیں ضروریاتِ زندگی کی تمام چیزیں دستیاب ھیں زیادہ خرید داری کے لیے لوگ منڈی بھلوال اور سرگودہا کا رخ کرتے ھیں۔
مساجد و مدارس
سندا میں کل 6 مساجد ھیں
جامعہ مسجد نقش بندیہ رضویہ جلا لیہ سندا
جامعہ مسجد سلطانیہ
پکی مسجد
شمالی مسجد
مدنی مسجد جو قانونی میں ھے
میانی مسجد۔
علماء کرام
مولانا محمد حسین (مرحوم ) سابق خطیب جامع مسجد نقش بندیہ رضویہ جلالیہ سندا
مولانا سلطان علی (مرحوم)
مولا نا غلام نبی صاحب (مرحوم )
مولانا غلام رسول صاحب (مرحوم )
جیسے عظیم اور با عمل انسان جنہوں نے اپنی زندگیاں دین اسلام کی تبلیغ میں وقف کر دیں۔ اولیا کرام کے مزارات کے حوالے سے دیکھا جاۓ تو 2 مزار کا ذکر سندا کی تاریخ میں ملتا ہے ایک سندا سے تھوڑا دور شمال کی طرف جس کو “شاہ کے جنڈ” کے نام سے جانا جاتا ہے اور دوسرا مزار فقیر دوست محمّد کا جو کہ انکی اپنی زمین میں گاؤں کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ سندا کی شرح خواندگی بہتر ہے گاؤں کے تقر یبًا 90 فیصدبچوں کو سکول بھیجا جاتا ہے اور اس شرح میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔
گاؤں میں 3سرکاری، 2 پرائیویٹ سکول اور ایک سرکاری ہسپتال ہے سندا کے سرکاری سکول جو لڑکوں کا ہے اس کا یہ ریکارڈ رہا ہے کہ پانچویں کلاس کے سنٹر امتحان میں ہر سال اول پوزیشن لیتا ہے اس لحاظ ہمارا سیاسی قیادت سے مطالبہ ہے کہ گاؤں میں کم از کم مڈل یا پھر ہائی سکول کی سطح تک تعلیمی سہولت میسر ہونی چاہئیے اور اس کے ساتھ لڑکیوں کے سکول کیلئے بھی یہی مطالبہ ہے جس سے اہلِ علاقہ مستفید ہو سکے۔
پڑھی لکھی شخصیات
سندا میں اعلی تعلیم یافتہ افراد میں
ڈاکٹر میاں محمّد احسن گوندل صاحب ایم ایس مینٹل ہسپتال لاہو
ریٹائر صوبیدار میاں محمد اقبال گوندل، پروفیسر شبیر احمد گوندل، ڈاکٹر منیر ایم بی بی ایس آئی
specialist، چوہدری سعید احمد گوندل ایڈوکیٹ بی اے ایل ایل بی
چوہدری خاور عباس گوندل ایڈوکیٹ بی اے ایل ایل بی
چوہدری مبشر افضال گوندل ایم۔آئی ٹی (آئی ٹی افیسر سی اے اے جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ کراچی)
محمد رمضان نعیم (بی اے بی ایڈ )
چوہدری شہزاد احمد گوندل css qualified custom officer
میاں محمد اسلم گوندل بی اے ایل ایل بی (کنیڈا )
پروفیسر سنکدر حیات گوندل پروفیسر ملٹری کالج سیالکوٹ
چوہدری شاہد محمود گوندل ایڈوکیٹ بی اے ایل ایل بی
کیپٹن محمد عمیر
کے نام قابل ذکر ھیں۔ اسلامی تعلیمی اداروں مدرسہ ضیا السلام اور دارالعلوم نقش بندیہ جلا لیہ رضویہ ھیں جہاں بچوں کو حفظ وناظرہ کے ساتھ ساتھ دوسری اسلامی تعلیمات دی جاتی ھیں۔ کسی بھی دوسرے شہر جانے ک لیے ٹرانسپورٹ با آسانی مل جاتی ہے پکی اور کشادہ سڑک ہونے کی وجہ سے منڈی، سرگودہا اور بھلوال کا سفر گھنٹوں کی بجاۓ منٹوں طے ہو جاتا ہے۔
گاؤں میں ٹیلی وژن، ریڈیو، ٹیپ ریکارڈر اور تمام ٹیلی کمپنیوں کی خدمات کے ساتھ ساتھ بین القوامی براہ راست پی ٹی سی ایل اور موبائل فون ہر گھر دستیاب ہے تیز ترین انٹر نیٹ کے سببskype ,imo line ،Facebook نے فاصلوں کو کم کر دیا ہے اب گاؤں میں بیٹھے لوگ نہ صرف اپنے پیاروں سے بات کر سکتے ھیں بلکے انکو چلتا پھرتا دیکھ بھی سکتے ھیں۔
سندا کے لوگ گائے، گائے، بھینس، بھیڑ بکریاں شوق سے پالتے ھیں یہاں کی فصلوں میں گندم، چاول، کماد، کینو اہم فصلیں ھیں کینو سندا کی مشہور ترین فصل ہے کینو وافر مقدار میں ھونے کی وجہ سے گاؤں کے جنوب میں ایک کینو فیکٹری تیار کی گئی ہے جہاں نہ صرف سندا کا مالٹا بلکے اردگرد کے قصبوں سے آنے والا کینو سٹور کر کے بیرونے ممالک سعودی عرب، دبئی، قطر،بحرین اور دوسرے بہت سے ملکوں میں بھیجا جاتا ہے۔
اس فیکٹری کا ایک اور بڑا فائدہ یہ ہے کہ سندا کے مزدور طبقہ کو کینو کے سیزن میں اپنے بچوں کے لیے روزی کمانے کا ایک اچھا موقع ملتا ہے اس کے علاوہ پاکستان کے مختلف شہروں ملتان ،اٹک اور پشاور کے لوگ کینو کے سیزن میں یہاں کام کرنے کے لیے آتے ھیں ۔مختصر یہ کہ سندا کی سر زمین کی زرخیزی کے بارے میں آپ یوں کہہ سکتے ھیں کے اس سرزمین سواۓ نمک کے باقی دنیا کی ہر چیز اُ گتی ہے
تحریر: میاں عاصم منیر گوندل آف سندا زاہد محمود شہید
The Village Baho باہو or Bahu is situation in tehsil Phalia. Its total area is about 65 sq. feet. Its total population is about 2,500 and 800 voters are registered.
The present village was founded at the end of the Mughal period by Karim Bakhsh and his two brothers Amir and Wazir, and other tribes/families came from outside and settled here.
Village Khairewal Ranjha خیرے وال رانجھا is situated in tehsil Phalia district Mandi Bahauddin which is 18 km away from Phalia city and almost 30 km away from city MBDIN.
History: تاریخ
It is said that this is the name of person who was called khaira. Khaira and Mian were two brothers. These two persons lived in this area. After the death of this person it (khairewall) was known by person name. people of the village are very generous, friendly, and caring.
Area of Village: گائوں کا رقبہ
Area of my village is almost 1 sq only.
Population: آبادی
The population of this village is around 2,000 people.
Mostly people are related to agriculture. Some are working abroad like
France
Italy
Kuwait
Oman
Dubai
South Africa
KSA
etc.
Hospital: ہسپتال
There is no hospital in my village. Only a private clinic working in my village.
Main Crops: اہم فصلیں
Wheat
Rice
Conn
Barley
Sugar cane
etc.
Flora and Fauna:
Buffaloes
Cows
Sheeps
Goats
Horses
etc
May Allah Bless This Village (AAMEEN)
The information was provided by Mr. Imran Nazeer
Manage Consent
To provide the best experiences, we use technologies like cookies to store and/or access device information. Consenting to these technologies will allow us to process data such as browsing behavior or unique IDs on this site. Not consenting or withdrawing consent, may adversely affect certain features and functions.
Functional
Always active
The technical storage or access is strictly necessary for the legitimate purpose of enabling the use of a specific service explicitly requested by the subscriber or user, or for the sole purpose of carrying out the transmission of a communication over an electronic communications network.
Preferences
The technical storage or access is necessary for the legitimate purpose of storing preferences that are not requested by the subscriber or user.
Statistics
The technical storage or access that is used exclusively for statistical purposes.The technical storage or access that is used exclusively for anonymous statistical purposes. Without a subpoena, voluntary compliance on the part of your Internet Service Provider, or additional records from a third party, information stored or retrieved for this purpose alone cannot usually be used to identify you.
Marketing
The technical storage or access is required to create user profiles to send advertising, or to track the user on a website or across several websites for similar marketing purposes.