Sivia سویہ
میری جان میری پہچان، میں ہوں سویہ، سویہ میرا نام
بہت میٹھے یہاں کے لوگ کرتے ہیں سب کو سلام
چھوٹے بڑے دارے، یہاں ہیں بہت سارے
کرتے ہیں لوگوں کی خدمت جہاں پر صبح وشام
میں ہوں سویہ، سویہ میری پہچان، سویہ میرا نام
ہیں مہمان نواز، کرتے ہیں یہ بہادری کے کام
مصیبت میں لیتے ہیں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام
ہیں بہت قابل اورمحنتی یہاں کے لوگ
دیس پردیس جہاں بھی ہوں کرتے ہیں بس کام
میں ہوں سویہ، سویہ میری پہچان، سویہ میرا نام
میٹھی زبان، ہے ان کی پہچان
دیکھ لواک بار کر کے ان سے کلام
کبڈی، باکسنگ، کرکٹ، گھڑ سواری یا ہو والی بال
ہیں بہت مشہور اور ساری دنیا میں ہے ان کا اک مقام
میں ہوں سویہ، سویہ میری پہچان، سویہ میرا نام
بشیر احمد بھٹی,اختر سویہ اور بڑے بڑے نام
ہار ماننا نہیں ان کے خون میں شامل
جیتے ہیں اِنہوں نے بڑے بڑے انعام
میں ہوں سویہ، سویہ میری پہچان، سویہ میرا نام
یہاں کے لوگ، ہیں سمجھدار، دنیادار ،ملنسار
سب کے لیےہے ان کا محبت بھرا پیغام
زندگی کے ہر شعبہ میں ہیں کامیاب
تعلیم میں بھی رکھتے ہیں اپنا ایک نام
ہیڈماسٹر بشیر صاحب تھے سویہ کی شان
ان سے سب کو پیار ، وہ رکھتے تھے سب کا مان
میں ہوں سویہ، سویہ میری پہچان، سویہ میرا نام
ہیں اصول پرست، دین و دنیا پے قائم
مذہبی خدمات میں بھی ہے ایک نام
حافظ عبدالرحمان ، حافظ عبدالرحمان
دربار سید رسول ہے روحانیت کی پہچان
ایک خدا پر ایمان، ہیں سب سچے مسلمان
سویہ میری جان، سویہ میری شان
میں ہوں سویہ، سویہ میری پہچان، سویہ میرا نام
سویہ
اُس زمانے میں یہ گاؤں ایک ٹیلے پر آباد تھا جو موجودہ گاؤں سے ڈیڑھ کلومیٹر شمال میں واقع ہےاُس وقت یہاں حاصلاں والے کے میانے، اُن کی یہ زمین تھی اور اُن کے مُرید باگڑی اُن کے پاس رہتے تھے اور اُن کی خدمت کرتے تھے بعد میں جب مغل بادشاہ اکبر اوردُلا بھٹی(رائے عبداللہ خان بھٹی راجپوت) کے درمیان لڑائی ہوئی اور دُلا بھٹی کو پھانسی دی گئی اور لڑائی میں کافی لوگ مارے گئے اسی لڑائی میں سوی سنگھ بھی مارا گیا جو کہ دُلا بھٹی کی اولاد میں سے تھا۔اُس وقت وہاں سے لوگ بھاگ کر کئی اور جگہوں پر آباد ہوئے اور سوی سنگھ کی بیوی یہاں اس ٹیلے پر آئی اور کسی طرح وہ حاصلاں والے میانوں کے پاس پیش ہوئی اور اُن کو اپنی ساری آپ بیتی سنائی اور اُن کے پوچھنے پر کہ تم کو کہاں کس جگہ جانا ہے تو اُس نے بتایا کہ میں کہیں بھی نہیں جانا چاہتی میں یہی رہنا چاہتی ہوں۔ پھر اُن کے کہنے پر وہ مسلمان ہوگئی اُس کے تین بیٹے تھے محمدا، نورا اور گودھا۔ موجودہ گاؤں میں جو مشرق میں لوگ آباد ہیں وہ محمدا کی اولاد ہیں۔ گاؤں کے باہر جو ہاشم کے ، لنگر کے اورگاؤں کے مغرب میں جو ہیں وہ نورا کی اور گودھا کی اولاد ہیں گودھا نے اپنی پسند کی شادی کی، محمدا کی شادی ہریےآل ہوئی اور نورا کی شادی بھلوال سرگودھا میں ہوئی اُس وقت بہت زیادہ بارشیں ہوئی اور یہ سب موجودہ گاؤں والی جگہ پر آ کر آباد ہوگئےاُس وقت یہاں پر ہندو آباد تھے اور یہ زمین حاصلاں والے میانوں نے چار حصوں میں تقسیم کی ،تین حصے تینوں بھائیوں نورا، محمدا اور گودھا میں تقسیم کر دی اور زمین کا چوتھا حصہ باگڑیوں کو دیا گیا کیونکہ اُس وقت ڈاکےپڑتے تھے اور گاؤں کو بچانے کے لیے باگڑیوں کو گاؤں کےاردگرد شمال، مغرب اور جنوب کی باہروالی زمین دی گئی۔ تقسیم ہند کے وقت یہاں پر ہندو، سکھ اور مسلمان آباد تھے۔ تقسیم کے بعد ہندو اور سکھ بھارت چلے گئے اور وہاں سے گجر ہجرت کرکے یہاں اُن کی جگہ جو کہ گاؤں کے سنٹر میں تھی آکر آباد ہوئے باقی جو اس گاؤں میں ذاتیں ہیں ان میں گوندل، وڑائچ اور تارڑ بھی شامل ہیں یہ بعد میں ورثہ پر ملنے والی زمین یا ویران پڑی زمین پر یہاں آکر آباد ہوگئےاس گاؤں کا رقبہ کافی بڑا ہے جو کہ میانہ چک، سندھانوالہ، شیخو چک اور مغرب میں نہر کے پار تک تھا جہاں چک شیر محمد آباد ہے جنوب میں یہ رقبہ ڈھوک مراد سے آگے تک تھا چونکہ اس وقت نہری نظام نہیں تھا اور زیادہ تر زمین غیر آباد تھی اور اِس زمین پر جنوب میں گجر موجودہ سندھانوالہ میں آکر آباد ہوئے۔ بعد جب انگریزوں نے یہاں نہری نظام بنایا تو یہاں اورآبادیاں بننے لگیں۔
پاکستان بننے سے پہلے یہاں ایک بشیر احمد بھٹی نمبردار تھاجو بہت لمبی اور اونچی چھلانگ لگانے میں ماہر تھااور کبڈی کا بہترین کھلاڑی بھی تھا اُس کے متعلق مشہور تھا کہ وہ بیلوں کی جوگ (ہل چلانے والی بیلوں کی جوڑی) کو چھلانگ لگا کر پھلانگ لیتا تھا وہ اپنے کھیل اور چھلانگ کی وجہ سے اتنا مشہور تھا کہ انگریزوں نے اُس کو پرندے (برڈ آف انڈیا) کا خطاب دیا اور اُس کو نیو دہلی سے ایک گولڈ میڈل انعام بھی ملا۔ اُس کے بعد اِس گاؤں میں کبڈی کے کافی مشہور کھلاڑی پیدا ہوئے جن کی وجہ سے یہ گاؤں سارے پاکستان حتیٰ کہ پوری دنیا میں مشہور ہے۔
اس کے علاوہ یہ گاؤں اپنے چوپالوں (داروں) اور مہمان نوازی کی وجہ سے پورے پنجاب میں مشہور تھا اور یہاں ایک بہت بڑا تاریخی دارا (چوپال)ہے جہاں شروع سے دس بارہ چارپائیاں مہمانوں کے لیے موجود رہتی تھیں اور یہ گاؤں اپنی اس مہمان نوازی کی وجہ سے بھی پورے علاقہ بلکہ پورے پنجاب میں مشہور ہے۔
اس گاؤں کی ایک اور خوبی یہاں کے پہلوان اور کبڈی کے کھلاڑی بھی ہیں اس گاؤں کے پہلوانوں میں (محندا )محمدکشمیری، حیدر سویہ، محمد حسین محندا، اصغر، نادر، منظور، اکرم، نواز باگڑی، مہندی خاں بھٹی، اختر ولد لال باگڑی، غلام رسول موچی عرف کاشو، عنایت پھیلے دا اور موجودہ پہلوان کھلاڑیوں میں جوادافضل باگڑی(انٹرنیشنل کھلاڑی جرمن کبڈی ٹیم) ، شفقت، قیصر محمود گجر وغیرہ شامل ہیں
حال ہی میں اس گاؤں کاایک اور اُبھرتا ہوا ستارہ انٹرنیشنل باکسنگ کھلاڑی شجاعت منظور گوندل بہت مشہور ہوا ہےجو اٹلی کی نیشنل باکسنگ ٹیم میں شامل ہے
باقی کھیلوں جن میں کرکٹ، والی بال، گھوڑ سواری میں بھی یہ گاؤں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔
گاؤں کی ایک اور بہت بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ یہاں کسی کا ویر(خاندانی دشمنی) نہیں ہے۔ لوگ بہت سمجھدار، دنیادار ،ملنساراور امن پسند ہیں
اس گاؤں میں بہت پُرانےاور تاریخی ایک ہاسپٹل انسانوں اور ایک جانوروں کے لیےموجود ہیں ۔
اس کے علاوہ یہ گاؤں اپنے ٹیچرز کی وجہ سے بھی بہت مشہور ہے یہاں کے ہیڈماسٹر بشیر صاحب بہت مشہور ہیں جنہوں نے اپنے گاؤں کےبہت سے نوجوانوں کو ٹیچنگ اور باقی محکموں میں آنے میں مدد کی
اس گاؤں میں ایک گورنمنٹ ہائی سکول لڑکوں اور ایک لڑکیوں کے لیے ہے۔ اس کے علاوہ تین پرائیویٹ سکول موجود ہیں
باقی مذہبی خدمات میں حافظ عبدالرحمان صاحب بہت مشہور اور ناقابلِ فراموش ہستی ہیں جنہوں نے مذہبی درس وتدریس سے پورے گاؤں کو مستفید کیا
اس گاؤں کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ یہاں پر ایک ہیڈ موجود ہے جہاں سےچار نہریں نکلتی ہیں جن میں ایک بڑی نہر اور تین چھوٹی نہریں ہیں۔ جو اس گاؤں کےعلاوہ آس پاس کے سب دیہاتوں کی زمین کو سیراب کرتی ہیں۔ پھالیہ سے گزرنے والی نہر بھی اسی ہیڈ سویہ سے ہی نکلتی ہے
گاؤںمیں آٹھ مساجد ہیں جن میں سے تین جامع ہیں جہاں دینی تعلیم بھی دی جاتی ہےاس کے علاوہ ایک جامعتہ اللبنات بھی موجود ہے
یہاں ایک دربار سید رسول بھی بہت تاریخی اور مشہور ہے
گاؤں کا موجودہ حدوددربعہ۔شمال میں شاہ کُلی، مشرق میں شیخو چک، مغرب چک شیر محمد اور جنوب مشرق میں سندھانوالہ، جنوب مغرب میں ڈھوک مُراد واقع ہیں
اس گاؤں کی آبادی دس ہزارافراد پر مشتمل ہے